• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل پندرہ مارچ سے پاکستان19سالوں کے بعد اپنی آبادی کو شمار کرنا شروع کرے گا۔ ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی آبادی ہماری توقع اور اندازے سےزیادہ ہوگی۔ہم اندازے ہی لگاسکتے ہیں کہ ہمارے پاکستان کے سابق دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر کی آبادی شاید تین کروڑ نفوس سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔ لاہور شہر کی آبادی بھی ہمارے اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ اس طرح ملتان، فیصل آباد، حیدر آباد اور پشاور کی آبادیاں بھی ہماری توقعات اور اندازوں سے زیادہ ہوں گی۔ لاہور شاید دہلی سے بڑا شہر اور کراچی بمبئی سے زیادہ آبادی والا شہر بن چکا ہوگا۔اپنے ملک کے انتظامی تقاضے پورے کرنے کےلئے ضروری بلکہ لازمی ہے کہ ہمیں اپنے ملک کی آبادی اور اس آبادی میں اضافے کی رفتار کا صحیح علم ہو اور اس علم کے ذریعے ہمارے پالیسی ساز اپنی پالیسیاں تیار کریں تاکہ اپنے لوگوں کی خوراک کی ضروریات اور تعلیم، علاج کی ضروریات کی تکمیل کا سامنا کرسکیں۔ عوام کو رہنے کے لئے مکانات اور رہائشی سہولتیں فراہم کرسکیںاور محصولات کے نفاذ کا انتظام کرنے میں بھی کامیاب ہوسکیں۔ جب تک ہماری انتظامیہ کو اس نوعیت کی معلومات حاصل نہیں ہوں گی ملکی معاملات کو قابو میں لانا مشکل ہوجائے گا۔ گزشتہ 19سالوں سے ہم اپنے ملک کی آبادی بیس کروڑ کے قریب سمجھ رہے تھے مگر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی آبادی اس سے کہیں ز یادہ ہوچکی ہوگی۔ صرف کراچی شہر کی آبادی دنیا کے کئی ملکوں کی آبادی سے زیادہ ہوچکی ہوگی بلکہ لاہور شہر کی آبادی بھی کئی ملکوں کی آبادی کے برابر ہوگی۔صرف آبادی میں ہی نہیں پاکستان نے بہت سارے معاملات میں ترقی کی ہے۔ پاکستان دنیا کی ایٹمی طاقتوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ پاکستان ایشیا کے ممتاز اور مشہور ملکوں میں شامل ہے اور آنے والی صدی میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کی وجہ سے دنیا کے اہم ترین اقتصادی خطوں میں شامل ہوگا مگر اس کی سائنس کی بنیادوں پر آبادی کا حساب مستقل طور پر پالیسی سازوں کے پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کی اصل طاقت اس کی آبادی، آبادی کا علم و فضل، تربیت، اہلیت اور لیاقت ہوتا ہے۔ ان عام شعبوں کو ہر حالات میں پیش نظر رہنا چاہئے اور ہر پالیسی میں دخل دینے والا ہونا چاہئے۔مردم شماری عام طور پر خانہ شماری سے شروع ہوتی ہے یعنی پہلے گھروں کو گنا جاتا ہے اور پھر ان گھروں میں رہائش رکھنے والوں کو گنا جاتا ہے۔ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ شایدبے گھر لوگ مردم شماری میں گنے نہیں جاتے جبکہ بے گھروں کا بھی کسی ملک کی آبادی میں بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ خانہ بدوش قبائل کو بھی کسی ملک کی آبادی کا حصہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ وہ بھی اس شمار میں شامل ہونے چاہئے۔ ملک کی انتظامی پالیسی انہیں بھی متاثر کرسکتی ہے۔ بے گھروں کے لئے گھر تعمیر کرنے کی ضرورت پوری کرنا لازم ہے اور خانہ بدوش شہریوں کو بھی قومی اور انتظامی ضابطوں اور پالیسیوں میں برابر کا حصہ دار بنانا ضروری ہی نہیں لازم بھی ہے۔

.
تازہ ترین