• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
افغان بارڈر کو تسلسل سے ’’آن ، آف ‘‘ کرنے کی پالیسی کا سنجیدگی سے جائزہ لینے ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر، ہمارے طویل المدتی تزویراتی تصورکے پس ِ منظر میں اہداف کے تعین اور دوطرفہ غیر مساوی اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ ان موجودہ اقدامات کے اس پریشان کن، لیکن اہم ریاست، افغانستان کے ساتھ ہمارے درمیانی اور طویل مدت کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔
ایک بات تو ہے کہ جب سرحد پار بیٹھے ہوئے گروہ ہمارے شہروں پر حملے کرکے عورتوں، بچوں اور آدمیوں کو ہلاک کرتے ہیں توہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوتا ہے ۔ یہ بھی واضح ہے کہ ہمیں کیا کرنے کی ضرورت ہے ، جیسا کہ کابل کو پیغام دینا کہ وہ ان گروہوں کو کسی نہ کسی طور کنٹرول کرے یا سزا دے ۔ لیکن سرحد بند کرنے سے صرف عوام کو تکلیف پہنچی ، جبکہ انتہا پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کےلئے ریاست کی کارروائی درکارتھی۔ تاہم ان اقدامات کی وجہ سے کابل کو پیغام ضرور گیا کہ اس کی سرزمین انتہا پسندی کو پروان چڑھا رہی ہے جوناقابل ِ برداشت ہے اور جس کی وجہ سے ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ نئے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو اپنی فورسز کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا حکم دینے کے لئے کسی سے مشاورت کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔کابل کے احتجاج ، دھمکیوں اور سفارتی ذرائع کے استعمال کے باوجود فوری رد ِعمل اور اس میں تسلسل نے ظاہر کیا کہ افغانستان سے نمٹنے کے لئے ہم نے فارمولہ طے کرلیا ہے کہ جیسے ہی ہمیں پاکستان میں حملے کرنے والے انتہا پسندوں کی اطلاع ملی یا ان کی مشکوک کارروائی دیکھنے میں آئی تو ہم بلاتامل وار کریں گے ۔ اس دوران انتہا پسندوں کے گرم تعاقب کا آپشن بھی موجود ہے ۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ بے عملیت اور لاف زنی کا دور گزر چکا۔
تاہم افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اس نئے عنصر کو شامل کرتے ہوئے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ایک ایسے ملک کے ساتھ آہنی بازو کا استعمال کہاں تک سودمند ہے جس کی داخلی صورت ِحال ہمارے سیکورٹی اہداف کو براہ ِراست متاثر کرتی ہو۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرناچاہئے کہ موجودہ حملوں کے بعد ہمارا افغانستان کے ساتھ طاقت کا استعمال جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم تھا، لیکن دوسری طرف یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ حالیہ حملوں نے ملک میںاتنا خوف و ہراس پیدا کردیا تھا کہ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان بھی مشرق ِوسطیٰ کی سی شورش کا شکار ہوسکتا ہے ، چنانچہ فوری اور طاقتور اقدام ناگزیر تھا۔ لیکن اب جبکہ یہ اقدامات اٹھائے جاچکے ، اور وقت کچھ آگے بڑھ چکاتو ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ طویل المدت روابط کو ذہن میں رکھ کر آگے بڑھا جائے ۔ یقیناً ہم دشمنی پر آمادہ افغانستان نہیں چاہتے کیونکہ اس کی حکومت ، چاہے کتنی ہی کمزور یا نااہل کیوں نہ ہو، اپنے عوام کو باور کراسکتی ہے کہ پاکستان ایک دشمن ملک ہے ۔ ان دونوں ممالک ، جو تجارتی امکانات رکھتے ہیں، کے حالات اس نہج تک نہیں پہنچنے چاہئیں کہ ان کی تجارت بڑھنے کی بجائے کم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوجائے،اور اس کے نتیجے میں سرحد کے دونوں طرف، قرب وجوار میںرہنے والے افراد کی زندگی، روزی، معیشت اور نقل وحرکت کی آزادی خطرے سے دوچار ہوجائے ۔
ان مضمرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ان سرحد کے آر پار جانے کے لئے قانونی یا غیر قانونی گزرگاہوں کو بند کرنا سفارتی یا فوجی اشتعال کے اظہار کا پسندیدہ ذریعہ نہیں ہونا چاہئے ۔ عوام کے درمیان دشمنی پیدا ہونے کی نوبت آنے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سرحدکو پرسکون رکھا جائے اور قرب وجوار میں رہنے والے عوام کویقین دلایا جائے کہ اُنہیں دہشت گردوں کی موجودگی کی قیمت نہیں چکانی پڑے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طویل سرحد پر موجود گزرگاہوں کو سختی سے ریگولیٹ کیے جانے کی ضرورت ہے ۔ سرحد پر باڑ لگانا ایک درست تصور ہے ، اور تمام ترتحفظات کو جھٹک کر اسے عملی جامہ پہنانا ہوگا ۔ مزید برآں، کابل کی طرف سے دھمکی آمیز لب ولہجہ اختیار کرنے اوردہشت گردحملوں کی صورت میں گزرگاہوں پر آمدورفت کی رفتار کم کردی جائے ، لیکن اسے بیک جنبش ِقلم مکمل طور پر ختم کرنا درست نہیں۔ اس سے کوئی مقصد حل نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ دہشت گردوں کے سرحد پار محفوظ ٹھکانوں پر اسٹرائیکس کی پالیسی کے مقاصد اور اہداف بھی کم ہوتے جائیں گے کیونکہ انتہا پسند اپنے ٹھکانوں کو سرحد سے دور ، ملک کے اندرونی حصوں تک لے جائیں گے۔ کابل انٹیلی جنس ایجنسی، انڈیا اور کچھ مغربی ممالک کی خفیہ اور غیر اعلانیہ اشیر باد حاصل کرنے کے بعد یہ تصور کرنا درست نہیں کہ وہ محض کچھ خالی علاقوں ، جہاں کا بل کاکنٹرول نہیں، میں بیٹھ کر اپنے عزائم کو آگے بڑھارہے ہیں۔ یہ دراصل پاکستان میں انتشار برپا کرنے کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے تاکہ پاک فوج کے وسائل کو مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلا دیا جائے ۔ چنانچہ قیاس اغلب ہے کہ یہ گروہ افغان سرزمین پرہی موجود رہیںگے، اور اس دوران کابل یہ بظاہر اصرار کرتا رہے گا کہ اُس کی ان علاقوں میں عملداری نہیں ہے ۔
اس سے ہمارے سامنے ایک پالیسی چیلنج پیدا ہوتا ہے کہ ہم کابل سے ایک ایسا مطالبہ کررہے ہیں جو، اُس کے مطابق، وہ پورا نہیں کرسکتا(یا پورا نہیں کرے گا)۔ تو پھر ہم اس کی سرزمین پر موجود گروہوں کو اپنی سرزمین پر کارروائیاں کرنے سے کس طرح روک سکتے ہیں؟ ہم سرحد پار مارٹر گولے پھینک کر یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ان کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے صرف دہشت گردہی تھے ۔ چنانچہ ہمیں بہت سنجیدگی سے سرحد پر باڑ لگانے اور ایک مضبوط بارڈر فورس قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمارے پاس ایف سی کی صورت ایک بنیاد پہلے سے ہی موجود ہے ۔ ضروری ہے کہ ایف سی کو افغان سرحد پر ’’قوم کے بازو شمشیر زن اور ڈھال ‘‘ کے طور پر تشکیل دے کر پوری توانائی سے سرحد پر کھڑا کیا جائے ۔ یہ ایک توانا فورس ہے اور فاٹا آپریشن کے اہم مراحل پر بہت سی کامیابیوں کے تمغے اس کے سینے پر سجے ہوئے ہیں۔ اگر ایف سی کی کاوش شامل نہ ہوتی تو آج فاٹا کے بہت سے حصوں پر قومی پرچم لہرا نہ رہا ہوتا۔ لیکن اب اسے ایک نئے کردار کی انجام دہی کے وسائل فراہم کیے جانے کی ضرورت ہے ۔
اتنا ہی اہم کام سرحد کے قرب وجوار میں موجودگی رکھنے والے قبائل کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ قبائل ہماری پہلی دفاعی لائن بھی ہیں اور کابل سے ہماری طرف آنے والی مشکلات کی گزر گاہ بھی ۔ ان میں سے کچھ قبائل، جیسا کہ باجو ڑ کے سلارزئی قبیلے نے اپنے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک رکھنے کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ ہم نے اُنہیں قبائلی لشکروں کے طور پر استعمال کیا تاکہ وہ اپنے طور پر طالبان کو شکست دے سکیں لیکن پھر اُن کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یہ بے حسی سفاکیت کے زمرے میں آتی ہے ۔ اب ضروری ہے کہ ان قبائل کے ساتھ بات کی جائے، لیکن اس کا مقصد کسی نئے لشکر کا قیام نہ ہو بلکہ ان کے تعاون سے سرحد کاکنٹرول اور گزرگاہوں پر نظررکھنا ہو۔ غیر روایتی تجارت (اسےا سمگلنگ نہیں کہنا چاہئے)کی وجہ سے انتہا پسندوں کو یہاں سرایت کرنے کا موقع میسر آتارہے گا۔ لیکن اسے روکنے کے لئے بھی سرحد پر انسانی ڈھال بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان تجاویز کو فوری عملی جامہ پہنائے جانے کی ضرورت ہے ۔
تاہم اگر ہم نے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ سفارتی ذرائع کو متحرک نہ کیا تو افغانستان کی طرف سے آنے والے چیلنج سے نمٹنا ممکن نہ ہوگا۔ ہتھیاروں کے ذریعے دیر پاامن صرف اسی صورت ممکن ہے جب دشمن کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے ، لیکن ایسی صورت ِحال ، جہاں مکمل فتح ممکن نہ ہو، انتہائی اقدامات بہت جلد ڈرائونے خواب کا روپ دھار لیتے ہیں۔ افغانستان سے مکمل روابط ٹوٹنے کی صورت میںپاکستان کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ہم نے سرحد بند کرکے اور انتہا پسندوں کے ٹھکانوں پر اسٹرائیکس کرکے دنیا اور کابل کواپنی بات درست طریقے سے سمجھا دی ہے۔ اب دوسرا مرحلہ سفارتی بازو فعال کرنے کا ہے ۔ اس سلسلے میں ہمیں پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے بہت طویل انتظار کرلیا کہ طالبان کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں، مزید انتظار بھی لاحاصل ہوگا۔ ضروری ہے کہ ہم افغانستان کے ساتھ امن کے پیمانوں کا ازسرِ نو تعین کریں۔




.
تازہ ترین