• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں اور یورپی یونین کے بڑے ممالک جن میں جرمنی اور فرانس پیش پیش ہیں کبھی بھی دل سے ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت عطا کرنے کے حق میں نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہی ترکی کو انسانی حقوق کا درس دیتے ہوئے اسے رکنیت سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں حالانکہ یہی ممالک، مشرقی یورپی ممالک کو جوترکی سے انسانی حقوق،معیار زندگی، شرح ترقی اورفی کس آمدنی کے لحاظ سے ترکی سے بہت پیچھے ہیں،رکنیت دیتے ہوئے ترکی کو یہ واضح پیغام دیتے رہے ہیں کہ کوئی اسلامی ملک چاہے وہ کتنا بھی ترقی یافتہ ہوجائے اور انسانی حقوق کے معاملے میں کتنی ہی اصلاحات کیوں نہ کرلے یورپی یونین میں اس کی رکنیت کے کوئی امکانات نہیں ہیں لیکن جب سے ترکی کی قومی اسمبلی میں حکومتی نظام میں تبدیلی سے متعلق بل کی منظوری دی گئی ہے اور اس سلسلے میں ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یورپی یونین کے کئی مزید ممالک ترکی کے خلاف ہوگئے ہیں۔ یورپی یونین کے یہ ممالک جو ہمیشہ ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں،نے ترکی اور خاص طور پر صدر ایردوان کے خلاف ہرزہ سرائی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ یورپی ممالک ترکی کو جو کہ ہمیشہ ہی سیکولر ملک ہونے کا پرچار کرتا رہا ہے کو ایک سیکولر ملک سے زیادہ اسلامی ملک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور ترکی کے ترقی کی راہ پر گامزن، مضبوط اور مستحکم ہونے سے خائف ہیں۔ یہ ممالک اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ترکی جوکہ 2002ء سے قبل عثمانی دور کے ’’مردِ بیمار‘‘ سے کم نہ تھا اور جسے دنیا میں کوئی خاص مقام حاصل نہ تھا ایردوان ہی کی پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا کے پہلے سولہ اقتصادی ممالک کی فہرست میں شامل ہونے میں کامیاب ہوا اور اسے جی 20 کی رکنیت عطا کی گئی۔ انہی یورپی ممالک کا خیال ہے کہ اگر ایردوان کو نہ روکا گیا اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی گئیں تو پھر ترکی کی ترقی کو روکنا اور اسے دنیا کے پہلے دس ترقی یافتہ اقتصادی ممالک کی صف سے باہر رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ ان کے مطابق صدر ایردوان کے نئے صدارتی نظام متعارف کرانے کے نتیجے میں ترکی2023ء تک کا اپنا ہدف آسانی سےحاصل کرلے گا۔ اس سوچ اور خوف نے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک کو ترکی کے خلاف یکجا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلا قدم جرمنی نے اٹھایا۔ جرمنی اور ترکی کے مابین سفارتی کشیدگی دی ویلٹ کے صحافی دینیز یوجیل کی گرفتاری سے ہوئی۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ’’یوجیل‘‘ پر جرمنی کے لئے جاسوسی کرنےاور دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کا نمائندہ ہونے کا الزام عائد کیا۔ صدر ایردوان کے مطابق اپنی گرفتاری سے قبل یوجیل ایک ماہ تک جرمن سفارت خانے میں چھپے رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد جرمن وزارت خارجہ نے بھی جرمنی میں تعینات ترک سفارت کار کو طلب کیا اور بعد میں حکومتِ جرمنی نے ان تمام جلسے جلسوں کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی ہے، جن کا تعلق صدارتی ریفرنڈم سے تھا۔ جرمنی میں ووٹ دینے کے اہل تقریباً ڈیڑھ ملین ترک شہری آباد ہیں جن میں واضح اکثریت صدارتی نظام کے حامیوں کی ہے جو جرمنی کے لئےباعث ِ تشویش ہے۔ حکومتِ جرمنی نے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ترکی کے وزیر انصاف کو جرمنی آنے اور جلسے سے خطاب کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد جرمنی میں ہیمبرگ کی شہری انتظامیہ نے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کو ایک جلسے سے خطاب کی اجازت دینے سے انکار کر دیا جس پر حکومتِ ترکی نے حکومتِ جرمنی کی شدید مذمت کی اور صدر ایردوان نے اسے فاشسٹ رویہ قرار دیا جس سے ترکی اور جرمنی کے مابین کشیدگی شدت اختیار کر گئی۔
جرمنی کے بعد یورپ کے دیگر ممالک بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ جرمنی کے بعد سویڈن نے بھی ترک سیاستدانوں کو ترک باشندوں سے خطاب کرنے سے روک دیا اور اس کے بعد ہالینڈ کے وزیراعظم مارک رٹے نے بدھ کے روز ہالینڈ میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل گیرٹ وائلڈر زپر برتری حاصل کرنے اور اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی غرض سے ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو اور وزیر خاندانی امور اور سماجی بہبود ’’فاطمہ بتول سایان قایا‘‘ کو ہالینڈ آنے کی اجازت نہیں دی جس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا سفارتی بحران پیدا ہوگیا جس پر قابو پانا فوری طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتا بلکہ اس سفارتی بحران میں مزید اس وقت شدت پیدا ہوگئی جب فاطمہ بتول سایان قایا شاہرا ہ کے ذریعے ہالینڈ پہنچ گئیں اور انہوں نے ترک قونصل خانے کے سامنے ترک باشندوں سے خطاب کرنے کا ارادہ کیا لیکن انہیں قونصل خانے پہنچنے سے قبل ہی روک دیا گیا اوردو گھنٹے روکنے کے بعد جرمنی واپس جانے پر مجبور کردیا۔ ترک صدر نے ترک سیاستدانوں پرہالینڈ میں داخل ہونے کی پابند ی کے بعد ہالینڈ کے سفارت کاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ’’ہمارے وزیر خارجہ کے طیارے کو لینڈنگ کی اجازت نہ دینے والوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ اب ہالینڈ کے طیارے کیسے ترکی کی سرزمین پر لینڈ کریں گے؟ ہالینڈ کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا‘‘ روٹر ڈیم میں ترک وزیر فاطمہ بتول سایان قایا کو قونصل خانے میں ترک باشندوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہ دئیے جانے پر قونصل خانے کے سامنے جمع ایردوان کے حامی ترک شہریوں نے مظاہرے شروع کر دئیے، جن پر قابو پانے کے لئے ڈچ پولیس کو اپنے گھڑ سوار دستوں اور واٹر کینن کا استعمال بھی کرنا پڑا جبکہ مظاہرین پر کتے چھوڑنے سے حالات مزید خراب ہوگئے۔
اس دوران آسٹریا کے چانسلر کرسٹیان کیرن نے مطالبہ کیا ہے کہ ایردوان کے ریفرنڈم کے لئے یورپ بھر میں کئے جانے والے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کی جائے۔ اپنے ایک انٹرویو میں کیرن کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں یورپ کا ایک مشترکہ طرز عمل ہونا چاہئے اور یہی اس مسئلے کا مناسب ترین حل ہے۔ اس موقع پر آسٹریا کے چانسلر نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ ترکی سے یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں مذاکرات کو بھی فوری طور پر روکا جائے اور اس ملک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے۔آسٹریا کے بعد ڈنمارک کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھی ترکی کے کسی بھی سیاستدان کو ڈنمارک آنے اور یہاں ترک باشندوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس طرح یورپی یونین کے یہ تمام ممالک ترکی کے خلاف یکجا ہوتے جا رہے ہیں اور ترکی کے صدارتی نظام کےحق میں ترک باشندوں سے ووٹ حاصل کرنے کی مہم کی اجازت نہ دے کر دراصل جمہوریت پسندی کے دعوے کی نفی کررہے ہیں جبکہ یہی ممالک ترکی میں انتخابات کے وقت اپنے اراکین پارلیمنٹ کو کردوں کی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کے دوران خطاب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور حکومتِ ترکی کو جمہوریت کے نام پر ان اراکینِ پارلیمنٹ کو خطاب کرنے کی اجازت دینا پڑتی ہے۔ یورپی یونین کے رویے نے صدر ایردوان کی کامیابی کو یقینی بنادیا ہے۔


.
تازہ ترین