• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام کی سب سے بڑی خوبی اور اس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس مذہب کے اختیار کرنے میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ بقول شاعر اس مذہب کی طرز ِ زندگی کو یوں اختیارکرنا چاہئے جیسے سنگ مرمر کی رگیں زیتون کی نرم و نازک جڑوں کو اپنے اندر غیرمحسوس طریقے سے قبول کرتی ہیں۔ حقیقت ہے کہ مرمر کا پتھر چونے کا پتھر کہلاتا ہے مگر چونا نباتات کادوست نہیں ہے مگر مرمر کے پتھروں میں صرف زیتون کے درخت نشوونما پاتے ہیں کیونکہ مرمر کا پتھر جس کو انسانوں کی طرح سانس لینے والا زندہ پتھر سمجھاجاتا ہے زیتون کی نرم و نازک جڑوں کو قبول اور برداشت کرسکتا ہے۔اسلام کی دوسری سب سے بڑی اور افضل خوبی یہ ہے کہ اس مذہب کے اندر دوسرے سارے مذاہب کا احترام پایا جاتا ہے۔ اسلام انسانی تاریخ کے تمام مذاہب کے پیغمبروں کو مانتا اور انہیں درود وسلام بھیجتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ بہترین سماجی تعلقات رکھ سکتاہے۔ ازدواجی رشتے بھی قائم کرسکتا ہے۔ دین اسلام کی یہ برداشت اسے دنیا کے بڑے مذاہب میں نمایاں بنانے کا سبب بن سکتی ہے اور بنی بھی ہے ۔ اس بنیاد پر اندازے لگائے جاتے ہیں کہ اگلے پچاس سالوں میں اسلام دنیا کے سب سے زیادہ انسانوں کا مذہب بن سکتا ہے اور یہ مذہب انسانوں کے باہمی رشتوں کو مستحکم بنانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس دین فطرت میں ناجائز طور پر داخل ہونے والی آلائشوں کو متواتر اور مسلسل صاف کرنے کاعمل جاری رہتا ہے اور جاری رہنا بھی چاہئے جو عمل یا سوچ انسانی فطر ت سے تعلق نہیں رکھتی اسے مذہب میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھنے والے مذہب میں قدرت کے خلاف کوئی سوچ اور کوئی عمل نہیں ہونا چاہئے۔ دین ابراہیم ؑ اور دین مبین کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ وہ دقدرت اور فطرت کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتا ہے اور دین کے معاملات میں جبر اور زبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔یہ سوچ بھی صحیح نہیں ہوسکتی کہ دوسرے مذاہب کا احترام کرنے اور انہیں برداشت کرنے سے غیردینی یا لادینی سوچ کو مدد ملتی ہے مگر دین کے تقاضے پورے کرنے والے غیردینی یا لادینی نہیں ہوسکتے۔ ہم دینی سوچ رکھیں گے تو دوسرے دین اور مذہب کا احترام کریں گے۔ اس دین کو برداشت کریںگے۔ دین کو برداشت کرنے سے ہی ہم دین کا احترام کریں گے۔ کسی کے دین کے خلاف باتیں کرکے ہم انسانوں کے درمیان برداشت اور انسانیت کے جذبات کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دارہوں گے اور انسانی باہمی تعلقات کے منافی ہے اور انسانوں کے باہمی تعلقات کے منافی عمل فطرت کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ انسان دوسرے انسانوں کی مدد کرنے کے لئے ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے ان کی خوشیوں میں اضافہ کرنے کے لئے اس دنیا میں آیا ہے تو اسے انسانوں کے درمیان محبت اور برداشت کے جذبات کو مضبوط اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلقات کو مضبوط اور مربوط بنانے میں جبر اورزبردستی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جاسکتی۔

.
تازہ ترین