• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر باراک اوباما کی اس پیشگوئی نے پاکستان کے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے کہ ’’ مشرق وسطیٰ ، افغانستان ، پاکستان ، وسطی امریکہ ، افریقہ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں آئندہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام رہے گا ۔ ان میں سے کچھ جگہیں نئے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کیلئے محفوظ جنت بن سکتی ہیں جبکہ دیگر علاقے نسلی اور لسانی تضادات اور قحط کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ اس صورت حال سے دنیا میں پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر اٹھے گی ۔ ‘‘ اس پر وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کی پیشگوئی درست ثابت نہیں ہو گی لیکن انہوں نے اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اس پیشگوئی کو حقیقت میں تبدیل ہونے سے روکنے کیلئے ہمیں ٹھوس حکمت عملی وضع کرنا ہو گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی حالات اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سرتاج عزیز جیسے رہنما بھی یہ محسوس کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے ٹھوس حکمت عملی وضع نہ کی تو باراک اوباما کی پیشگوئی درست ثابت ہو سکتی ہے ۔ صدر اوباما نے ہمیں چیلنج دیا ہے ۔ بلکہ انہوں نے پوری پاکستانی قوم کو چیلنج دیا ہے ، جو گزشتہ تین عشروں سے دہشت گردی ، بدامنی اور انتشار کا شکار ہے ۔ ہمیں اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے اور یہ عزم کرنا چاہئے کہ ہم پاکستان کو عدم استحکام کے عذاب کا مزید شکار نہیں ہونے دینگے ۔ ہماری آنے والی نسلیں اس عذاب کی متحمل نہیں ہو سکتیں ۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے ، یہ کسی بھی قوم کے صبر اور برداشت سے باہر ہے ۔
مذکورہ پیش گوئی باراک اوباما نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کی ہے ۔ یہ امریکی صدر کی حیثیت سے ان کا آخری خطاب تھا ۔ وہ دوبارہ اس منصب کیلئے الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ اور اس کے مفادات کے تناظر میں دنیا کے حالات کا تجزیہ کیا ہے اور امریکہ کو درپیش چیلنجز کے طور پر پیش گوئیاں کی ہیں ۔ ہمیں اپنے معروضی حالات کے تناظر میں اپنے مستقبل کا تعین کرنا چاہئے ۔ بدقسمتی سے ہماری قومی سیاسی قیادت میں کوئی بھی رہنما پاکستان کے ایشوز اور اسے درپیش چیلنجز پر کھل کر بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ایسی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے ، جو پاکستان کو دنیا کا پرامن اور محفوظ ملک بنا سکتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں کا ادراک رکھنے والی اور انہیں صحیح رخ دینے والی غیر معمولی قیادت کی ضرورت ہے ۔آج ہمارے ملک میں حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کرپشن اور بیڈ گورننس کے خلاف پر عزم ہے اور جنرل راحیل شریف اور فوجی قیادت ملک میں دہشت گردی اور تشدد اور انتہا پسندی سے پاکستان کو پاک کرنے کے لئےٗ آخری حد تک جانے کےلئے تیار ہیں۔ جس ٹھوس حکمت عملی کی بات سرتاج عزیز نے کی ہے ، اسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بہترین الفاظ میں پاکستان جیسے ملکوں کیلئے ایک پلان کی صورت میں پیش کر دیا ہے تاکہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو روک سکیں اور عدم استحکام سے نجات حاصل کر سکیں ۔ پاکستان کو اسی پلان پر کچھ ردوبدل کے ساتھ عمل کرنا چاہئے ۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان میں مثبت تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں ، جن میں بان کی مون کے پلان پر عملدرآمد ہو سکتا ہے ۔ پہلے ان تبدیلیوں کا تذکرہ ضروری ہے ، جن کا محرک پاکستانی ریاست اور سماج کے رویوں میں تبدیلی ہے ۔ اس کے بعد ان امکانات کا جائزہ لیا جائیگا کہ بان کی مون پلان پاکستان کے معروضی حالات میں کہاں تک قابل عمل ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست اور ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) کی وہ ’’ ڈاکٹرائن ‘‘ بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہے ، جو پاکستان میں عدم استحکام کا سب سے بڑا سبب تھی ۔ مقتدر حلقوں کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ پاکستان کو پہلے کی طرح ایک ’’ Ethnoreligious ‘‘ ( لسانی مذہبی ) ریاست کے طور پر نہیں چلایا جا سکتا ۔ یورپ میں انتہا پسندی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں 200 سال پہلے چرچ اور ریاست کو الگ کر دیا گیا تھا ۔ وہاں فرقہ ورانہ ، نسلی اور لسانی لڑائیوں کے بعد مسئلے کا حل تلاش کر لیا گیا ۔ اگرچہ ہم یہ سب کچھ نہیں کر سکے ہیں لیکن ہم میں یہ احساس پید اہو گیا ہے کہ ایسا ہونا چاہئے ۔ پاکستان میں مذہبی ، فرقہ ورانہ ، لسانی اور نسلی بنیادوں پر انتہا پسندی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہاں اقلیتی مذہبی ، مسلکی اور لسانی گروہ احساس محرومی کا شکار رہے ۔ اب وہ ڈاکٹرائن تبدیل ہو گئی ہے ۔ اس کا ثبوت دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف گزشتہ چند سالوں سے شروع ہونے والی جنگ ہے ۔ اس طرح کی جنگ کا پاکستان میں پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ ریاست اور ہیئت مقتدرہ ان انتہا پسند اور جنگجو گروہوں سے ٹکرا گئی ہے ، پہلے جنہیں ہیئت مقتدرہ کا اتحادی تصور کیا جاتا تھا ۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ پاکستان سے طالبان اور القاعدہ کے قدم اکھاڑ دیئے گئے ہیں ۔ اسی طرح کراچی میں بھی 30 سال سے راج کرنیوالے دہشت گردی کے عفریت پر قابو پالیا گیا ہے ۔ ان کامیابیوں میں پاکستان کی مسلح افواج اور رینجرزکا وہ عزم ہے جو کراچی میں مستقل امن کے خواہاں ہیں حالانکہ ان کو شفاف سول اور سیاسی قوتوں کی طرف سے رکاوٹوں کا سامنا ہے اس میں پیرا ملٹری فورسز ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کی قربانیوں اور جذبوں کو فراموش کیا جا سکتا ہے ۔ ان کامیابیوں سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان مستقبل میں داعش سمیت نئی یا پرانی دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورکس کیلئے محفوظ جنت نہیں ہو گا ۔ تیسری اور اہم تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ، قومی سیاسی قیادت اور عوام احتساب اور گڈ گورننس کے حوالے سے بہت حساس ہو گئے ہیں ۔ اس ضمن میں بیداری کی ایک عوامی تحریک بھی چل پڑی ہے جو سیاسی قیادت اور نوکر شاہی اور سہولت کاروں کے خلاف سخت اور عبرت ناک سزا کا انتظارکر رہے ہیں۔ اگرچہ بہت سی پیچیدگیاں ہیں لیکن صورت حال امید افزاء ہے ۔ وہ ریاستیں اور معاشرے عدم استحکام اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں ، جہاں اچھی حکمرانی ، انصاف ، میرٹ ، آزادی فکر و عمل اور احتساب کا فقدان ہوتا ہے اور دراصل یہ ہی انتہا پسندی، تشدد اور دہشت گردی کو جنم دیتی ہے۔ آج ان کیلئے ہر طرف سے آواز اٹھ رہی ہے ۔ ان مثبت تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی زمین تیار ہو رہی ہے ، جس میں ہم امن ، استحکام اور خوش حالی کی فصل بو سکتے ہیں ۔ اب آتے ہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے پلان کی طرف اور اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ پلان ہمارے ہاں کس حد تک قابل عمل ہے ۔
بان کی مون نے کہا ہے کہ ہر ملک اپنے معروضی حالات کے مطابق اس پلان پر عمل درآمد کرے اور اسے اپنا قومی پلان بنائے ۔ میں ان کے اس پلان کے تمام نکات سے اتفاق کرتا ہوں ۔ اپنے پلان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے 79 سفارشات کی ہیں ، جن کے مطابق ایسے اقدامات کئے جائیں کہ انتہا پسند یا دہشت گرد گروہوں کو جواب دینے کیلئے کم سے کم فوجی آپشن اختیار کرنا پڑے کیونکہ بان کی مون کے بقول سالہا سال کے تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ تنگ نظر پالیسیوں ، ناکام قیادت ، آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے فیصلوں اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے حالات مزید خراب ہو ئے ۔ لوگ ایک دوسرے سے اجنبی ہو گئے اور احساس محرومی کا شکار ہو ئے، جس کے نتیجے میں وہ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ۔ بان کی مون نے یہ بھی تجویز کیا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو استعمال کرنے کے لئے قومی اتفاق رائے اور تدبر سے فیصلہ کیا جائے ۔ ہمارا قومی نیشنل ایکشن پلان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے وژن کے بہت قریب ہے ۔ انہوں نے سب سے زیادہ تعلیم میں اضافے پر زور دیا ہے تاکہ نوجوانوں کی دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی کو روکا جا سکے ۔ بان کی مون نے اچھی حکمرانی ، میرٹ اور انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور آزادی فکر و عمل پر بھی زور دیا ہے ۔ پاکستان میں یہ پلان بہت حد تک قابل عمل ہے ۔ امریکی صدر باراک اوباما نے جو پیش گوئی کی ہے ، ہمیں اس کو محض ایک بیان سمجھ کر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے ۔ ہم تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر ہیں ، جہاں بہت سی چیزیں ہمارے بس میں نظر آ رہی ہیں اور بہت سی چیزیں ہمارے بس میں نہیں ہیں ۔ مثبت تبدیلیوں کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد ہم باراک اوباما کے چیلنج کا مقابلہ کر سکیں گے ۔ ہمارے ماضی کے تناظر میں حالات مایوس کن ہیں لیکن ’’ یہی تاریکی تو ہے غازہ رخسار سحر ‘‘ ۔
تازہ ترین