• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت کی اکثر تعریف وہی کی جاتی ہے جو سابق امریکی صدر ابراہم لنکن نے کی تھی کہ’’ عوام کی حکومت،عوام کیلئے اور عوام کے ذریعے‘‘ تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کیا واقعی نافذ العمل جمہوریت کی وساطت سے عوام ہی بلواسطہ طور پر برسراقتدار ہیں ،ایک الگ اور دلچسپ بحث ہے۔ موجودہ نظامِ جمہوریت میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث ہی عدالت عظمی کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی نئی سیاسی جماعت کی تشکیل سے اپنی آواز گاہے بہ گاہے اٹھنے والی ان آوازوں کیساتھ ملا دی ہے جو پاکستان کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام سے تبدیل کرنے کی خواہاں ہیں لیکن اقتدار پر قابض آمروں کی طرف سے بلا شرکت غیرے طویل عرصے حکومت نے صدارتی نظام سے بھی لوگوں کا دل کھٹا کر دیا ہے اور شاید یہی وہ پس منظر ہے کہ صدارتی نظام کے حق میں اٹھنے والی آوازں کو نہ ہی عوام میں پذیرائی ملتی ہے اور شخصیات کے گرد گھومتی سیاسی جماعتوں کو تو سرے سے ایسی بولی بولنے والے ایک آنکھ نہیں بھاتے، اگر پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کے انتہائی برے وقتوں کے وفادار ساتھی چوہدری جعفر اقبال جیسے، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے موجودہ پارلیمانی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیں اور صدارتی نظام کی بحث کو زندہ کرنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان پر پارلیمنٹ سمیت وزیر اعظم ہائوس کے دروازے بھی بند کر دئیے جاتے ہیں۔خیر بات کسی اور طرف نکل گئی اس تحریر کا مقصد تو جمہوریت پسندوں کے پارلیمنٹ سے روا رکھے جانے والے اس رویے کو آشکار کرنا ہے جو ونسٹن چرچل جیسے شہرہ آفاق دانشور اور سیاسی رہنما کے اس قول کی آڑ میں روا رکھے ہوئے ہیں کہ’’ جمہوریت بد ترین نظام حکومت ہے لیکن یہ ان تمام نظاموں سے بہتر ہے جو اب تک آزمائے جا چکے ہیں‘‘۔ پارلیمنٹ جسے نافذ العمل جمہوری نظام میں عوام کے نمائندہ ادارے سے تعبیر کیا جاتا ہے ،عوام کے انہی منتخب نمائندوں کی طرف سے اس وقت اتنی بے وقعت اور بے توقیر کر دی جاتی ہے جب اس کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اجلاس کے دوران اکثر اوقات کورم کو پورا کرنے کیلئے مطلوبہ تعداد تک پوری نہیں ہوتی۔ یہ تو بھلا ہو میثاق جمہوریت کا جسے پاکستان تحریک انصاف مک مکا سے تعبیر کرتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں اس وقت کی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے کبھی کسی ایوان میں کورم کی نشان دہی نہیں کی تھی۔ وقت بدلا اور باری تبدیل ہوئی تو گزشتہ ڈھائی سال سے موجودہ اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی نے بھی احسان کا پورا بدلہ چکایا اوروفاقی حکومت کو کبھی کورم کی نشان دہی کر کے مشکل سے دو چار نہیں کیا لیکن کہا جاتا ہے کہ سیاست بڑے بے رحم کھیل کا نام ہے اور اس میں مفادات پرز د پڑے تو معاہدے وقعت نہیں رکھتے،کسی پر صوبے کی زمین تنگ کر دی جائے اور اس کی کمین گاہ تک پہنچنے کےلئے نقب لگانے کی کوشش کی جائے تو پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس چلانے مشکل ہو جایا کرتے ہیں۔ نام نہاد ’’مفاہمت‘‘دم توڑ جاتی ہے اور ایک دوسرے کی بیساکھی بننے کے وعدے کرنے والے ’’حقیقی اپوزیشن‘‘کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پھر کبھی قومی اسمبلی میں نفیسہ شاہ مطلوبہ تعداد میں ارکان کے ایوان میں موجود نہ ہونے پر کورم کی نشان دہی کر دیتی ہیں تو کبھی عاجز دھامرہ سینیٹ میں چیئرمین کی توجہ کورم پورا نہ ہونے کی طرف دلا دیتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف تمام تر مروت اور وضع داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قائد ایوان کی مسلسل غیرحاضری پر براہ راست انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، نہ صرف دھرنے کے دوران ان کی حکومت کو سہارا دینے کا احسان جتاتے ہیں بلکہ براہ راست طنز کرتے ہیں کہ وزیر اعظم اقتصادی راہداری کے نقشے بنانے میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں قومی اسمبلی میں قدم رنجہ فرمانے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ وزیراعظم اور حکومتی ارکان کو زچ کرنے کیلئے اسی پیپلز پارٹی کے ارکان وزیر اعظم کی ہر اجلاس میں موجودگی کویقینی بنانے کیلئے قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں ترمیم پیش کر دیتے ہیں جو کل تک وسیع تر ’’قومی مفاد‘‘میں اپنے لب سی لیتے تھے لیکن وزیر اعظم تو کجا حکومتی ارکان کی غیر موجودگی پر اف تک نہ کیا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے’’ پرائم منسٹر کوئیسچن ٹائم ‘‘ کے نام سے قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی جو ترمیم پیش کی تھی اس کے تحت تجویز کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم ہر اجلاس کے پہلے بدھ کونہ صرف خود ایوان میں موجود ہوا کریں گے بلکہ وہ آدھے گھنٹے تک ارکان کے سوالات کے جوابات بھی براہ راست دینگے۔ اس ترمیم کی حکومت نے مخالفت کی اور اسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا لیکن وفاقی حکومت اپنے قائد ایوان کو ایوان میں آنے کی اس مجوزہ پابندی سے بمشکل ہی بچا پائی ہے کیوں کہ رائے شماری کے دوران ترمیم کے حق میں اپوزیشن کے 60 ووٹ پڑے جبکہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں صرف 73 ووٹوں سے اسے مسترد کر پائیں۔ ویسے اپوزیشن کی طرف سے اس ترمیم کو لانے کا مقصد صرف حکومت کو سبکی سے دوچار کرنا ہی تھا کیوں کہ انہیں بخوبی ادراک ہے کہ جس وزیر اعظم نے اپریل 2014 کو سینیٹ کے قواعد و ضوابط میں کی گئی ترمیم کے باوجود آج تک ایوان بالا کو اہمیت نہیں دی وہ ایوان زیریں کو کہاں اتنا شرف بخشیں گے کہ بھانت بھانت کی بولیاں سنیں اور پھر ادھر ادھر کی ہانکنے والوں کو مطمئن بھی کریں۔ یہاں پہ آئیں اور قانون کی عمل داری پر یقین رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کی یاد دہانی کیلئے بھی ضروری ہے کہ سینیٹ میں زیرو آور کو پرائم منسٹر آور سے تبدیل کرنے کے حوالے سے منظور کی گئی مذکورہ بالا ترمیم کے تحت وزیر اعظم کو ہفتے میں ایک دن ایوان بالا میں آنا اور ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دینا ضروری ہے تاہم اس قاعدے پر تاحال عمل درآمد ممکن نہیں ہوسکا۔ وفاقی وزراءکے ایوان میں نہ آنے پر سخت نتائج کی دھمکیاں دینے والے جناب چیئرمین سینیٹ کیا اس ترمیم پہ عمل درآمد کرانے کا کڑوا گھونٹ بھی پینا پسند کریں گے۔ ویسے حکمران جماعت کو تو بے مثل ڈھٹائی پر ستارہ امتیاز سے نوازا جانا چاہئے جس کو چیف وہیپ سے لے کر اسپیکر تک باور کرا کے تھک چکے کہ جس ایوان کا رکن بننے کیلئے اتنے پاپڑ بیلتے ہیں اس میں حاضری بھی یقینی بنائیں لیکن مجال ہے جو کانوں پہ جوں تک رینگی ہو۔ جس جماعت کے ارکان اسپیکر کے انتخاب میں بھی لا پروائی برتتے ہوئے غیر حاضر ہوں اور وزیر اعظم کے نوٹس لینے پر ایک خاتون رکن کمال بے اعتنائی سے جواب دئیں کہ اس کے گھریلو امور اسپیکر کے انتخاب سے زیادہ ضروری تھے تو وہاں بے چارے شریف اور وضع دار چیف وہیپ کی کون سنتا ہے۔ جس جماعت کو ایوان میں دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان نہ ملیں اور اسے اجلاس کی کارروائی جاری رکھنے کیلئے اپوزیشن کے ارکان کی معاونت سے گنتی پوری کرنی پڑے اس پر تو ایک مقالہ لکھا جانا چاہئے۔ یہاں پر ایوان میں دوسری بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ایوان میں نہ آنے کا ذکر اس لئے نہیں کروں گا کیوں کہ کورم کو پورا کرنا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور جس کے لاڈلے رکن صرف رکنیت برقرار رکھنے کیلئے چالیس دن میں وقفہ دینے کیلئے ایک دن اجلاس میں رونمائی کرائیں وہاں کسی اور سے غیر حاضری پر استفسار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ارکان کی حاضری کے بارے میں پارلیمانی امور کے ماہر اور شہید بے نظیر بھٹو کیساتھ بطور سیکرٹری ذمہ داریاں سر انجام دینے والے اظہار امروہی مرحوم نے ایک نشست کے دوران بتایا تھا کہ جب بی بی دوسری بار وزیراعظم بنیں تو ارکان کی حاضری شیٹ وہ تیار کر کے روزانہ بی بی کو بھیجتے تھے،وہ حکومتی ارکان کی ایوان سے غیر حاضری کو سخت ناپسند کرتی تھیں تاہم وہ اکثرغیر حاضر رہنے والے ارکان کی سرزنش نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ دوران اجلاس اس رکن کی نشست پر جاتیں اور اس سے دریافت کرتیں کہ آپ کے گھر، دوست احباب ،محلے اورعلاقے میں سب خیریت ہے نا،کافی دن گزر گئے آپ سے اجلاس میں ملاقات نہیں ہوئی۔ بس اتنی سی ’’توجہ‘‘ ملنے کے بعد وہ رکن جلدی رخصت بھی نہیں لیا کرتا تھا۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ قائد ایوان خود ایوان کو رونق بخشیں تو ہی کسی رکن کو بھی ’’توجہ‘‘ ملے اور وہ اجلاس سے غیر حاضر نہ ہو۔ اپوزیشن کی سخت تنقید،چیف وہیپ قومی اسمبلی اور قائد ایوان سینیٹ کی بے بسی،اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی بارہا سرزنش اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کی مالا جھپنے والوں کی مایوسی کے باوجود مسلم لیگ ن کا پارلیمنٹ میں حاضری کا ریکارڈ دیکھ کر بھولے ہوئوں کو اس محترم عمارت کا رستہ یاد دلانے کا ایک ہی نسخہ سمجھ میں آتا ہے، پھر کوئی دھرنا یا نیا سیاسی بحران۔
تازہ ترین