• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کی پانچ ریاستوں اترپردیش، مشرقی پنجاب، اترآکھنڈ، گوا اور منی پور میں انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے اور اس کے نتائج بھی آگئے ہیں۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش ہے جس کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 403ہے۔ اترپردیش کے انتخابی مرحلہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2تہائی سے اکثریت حاصل کی۔ اترپردیش کے ایوان میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 403میں سے 325نشستیں حاصل کیں جبکہ سابقہ حکمران جماعت سماج وادی پارٹی جس کا انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ اتحاد تھا وہ صرف54 نشستیں حاصل کر سکی۔ سابق وزیراعلیٰ اترپردیش مایا وتی کی بھوجن سماج پارٹی 9نشستوں تک محدود رہی۔ اترپردیش جہاں مسلم اور اقلیتی ووٹرز کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق 40فیصد کے لگ بھگ ہے۔ انتخابات سے قبل اس ریاست میں یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ سابقہ حکمران جماعت سماج وادی پارٹی اور کانگریس کا اتحاد واضح اکثریت حاصل کرے گا مگر نتائج اس کے بالکل برعکس آئے۔ اس اعتبار سے بھارت میں جو تجزیے اور تبصرے ہو رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو ووٹرز نے مکمل طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا ساتھ دیا جبکہ مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتی ووٹرز کی اکثریت نے سماج وادی پارٹی‘ کانگریس اتحاد اور بھوجن سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت کی سب سے بڑ ی ریاست میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے مگر اس کی جیت سے اس ریاست سمیت پورے بھارت میں ہندو اور دیگر قومیتوں کے درمیان تفریق بڑھ رہی ہے بھارت جو کہ نام نہاد سیکولر ملک کہلاتا ہے اب وہ ہندو اسٹیٹ بننے کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور یہاں دیگر اقلیتی قومیتیں یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ بھارت میں ان کے لئے زمین تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ مودی سرکار کا جادو اترپردیش کے ریاستی انتخابات میں سر چڑھ کر بولتا رہا اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اترپردیش کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل ہونے والی دو تہائی اکثریت کا سہرا مودی کے سر ہے لیکن بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور وہاں کے دیگر ریاستی ادارے اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ مودی کی انتخابی مہم کے دوران ہندوئوں اور دیگر قومیتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی تفریق کو کیسے ختم کیا جائے؟ سماج وادی پارٹی اور بھوجن سماج وادی پارٹی کی طرف سے اب یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ ریاست اترپردیش کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ووٹر مشینوں کے ذریعہ ناصرف نتائج تبدیل کیے گئے ہیں بلکہ غریبوں کو پیسے دیکر ووٹ بھی خریدے گئے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یہاں سے کم نشستیں حاصل کرنے والی دونوں پارٹیاں دھاندلی کے حوالہ سے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیراعظم نریندر مودی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب بھی وہ مقبول ترین لیڈر اور ان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ بھارت کی دوسری اہم ریاست پنجاب جس کو ہم مشرقی پنجاب کہتے ہیں کے انتخابات بھی مکمل ہو چکے ہیں مشرقی پنجاب اسمبلی کی 117نشستیں ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس نے یہاں سے 77جبکہ عام آدمی پارٹی نے 22‘اکالی دل اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحاد نے صرف 18نشستیں حاصل کیں۔ بھارتی پنجاب کے حالیہ انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل تھے کیونکہ پچھلے کچھ عرصہ سے یہاں پر ایک بار پھر خالصہ تحریک نے زور پکڑ لیا ہے۔ اس تمام صورتحال کے پیش نظر اس ریاست کے انتخابات انتہائی اہمیت اختیار کر چکے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ عام آدمی پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہ سکھ تنظیمیں اور لوگ حصہ لے رہے تھے جو بھارت سے علیحدگی چاہتے ہیں اور خالصتان کے نام سے خود مختار ریاست بنانے کے حامی ہیں۔ مشرقی پنجاب کے انتخابات سے قبل جو سروے آرہے تھے ان سے اندازہ لگایا جا رہا تھا کہ عام آدمی پارٹی واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرے گی تاہم انڈین نیشنل کانگریس اس ریاست میں کامیاب ہو کر حکومت بنانے جا رہی ہے جبکہ عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر پر رہی۔ اس ریاستی انتخابات کے بعد مشرقی پنجاب میں بھی یہ آواز اٹھنا شروع ہو گئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہاں پر کانگریس کو جتوانے میں کردار ادا کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی بھارتی پنجاب کی مقبول ترین سیاسی پارٹی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کجریوال اس وقت نئی دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں انہوں نے بارہا یہ واضح کیا ہے کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اگر اس کی کسی ریاست میں کوئی مسئلہ ہے تو اس کا جمہوری انداز سے حل نکالا جائے گا۔ کشمیر سمیت کسی بھی ریاست میں رہنے والے باشندے آزادی سمیت کسی ایشو پر ریفرنڈم چاہتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ اروند کجریوال کی اس سوچ اور فکر کی وجہ سے مشرقی پنجاب کے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر عام آدمی پارٹی بھارتی پنجاب کے ریاستی انتخابات میں اکثریت حاصل کرلیتی تو یہ بھارت کے مفاد میں نہ ہوتا۔ عام آدمی پارٹی کو اکثریت ملنے سے مشرقی پنجاب کے حالات مزید خراب ہو سکتے تھے اور خالصہ تحریک مستحکم ہوسکتی تھی لہٰذا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس پارٹی کا راستہ روکا گیا۔ بھارتی پنجاب میں حالیہ انتخابات پر مقامی میڈیا شکوک و شہبات کا شکار ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ اگر عام آدمی پارٹی میں کچھ ایسے عناصر شامل ہیں جو خالصتان بنانے کے حامی ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ جمہوری انداز سے انتخابات میں حصہ لے کر سسٹم کا حصہ بننے جا رہے تھے ان کا اس انداز سے راستہ روکنا ان کو پھر سے مزاحمت کی طرف لے جائے گا جو کہ بھارت کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔ میڈیا کا مؤقف ہے کہ ایسے اقدامات سے خالصتان تحریک کو دبانے کی بجائے اس کو تقویت حاصل ہوگی۔ بھارت کی ریاست اتر آکھنڈ میں انتخابات مکمل ہوئے یہاں پر کل 70نشستیں ہیں جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی 57، کانگریس 11جبکہ دیگر نے2نشستیں حاصل کیں۔گووا کے انتخابات میں کانگریس نے 17، بھارتیہ جنتا پارٹی نے 13جبکہ دیگر نے 10نشستیں حاصل کیں۔ اس ریاستی اسمبلی کی کل نشستیں 40ہیں، اسی طرح منی پور کے انتخابات میں بھی اکثریت نیشنل کانگریس نے حاصل کی۔60کے ایوان میں نیشنل کانگریس نے 28، بھارتیہ جنتا پارٹی نے21جبکہ دیگر نے11نشستیں حاصل کیں۔ان پانچ ریاستوں کے نتائج سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بھارتیہ جتنا پارٹی اب بھی مقبول ترین جماعت ہے اور مودی ایک مضبوط ترین وزیراعظم ہیں۔ پانچ بھارتی ریاستوں میں انتخابات کے بعد اب یہ بحث شروع ہوچکی ہے کہ مودی سرکار کیلئے پاکستان کے ساتھ اب بات چیت کا آغاز کرنا آسان ہوگا۔ اب بھارتی دانشور، میڈیا بھی اس بات پر زور دے رہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر فی الفور مذاکرات کرنا چاہئیں بات چیت میں تاخیر بھارت کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہےنیز بھارت کو سی پیک منصوبہ میں شامل ہونے کے حوالے سے بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اس منصوبہ میں شمولیت نہ کرنے سے بھارت کو ناقابل تلافی معاشی نقصان اٹھانا پڑے جبکہ میڈیا اور دانشور اس بارے میں بھی گفتگو کر رہے ہیں کہ بھارت کے اندر ہندوئوں اور دیگر اقلیتوں کے درمیان جو تفریق پیدا ہو رہی ہے خاص طور پر مسلمان جس طرح تشویش میں مبتلا ہیں اس صورتحال سے کہیں پاکستان فائدہ نہ اٹھا جائے۔ لہٰذا پاکستان سے بات چیت کرنا اور تعلقات میں بہتر ی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

.
تازہ ترین