• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں ریاست پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ" ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ آغاز کر رہے ہیں کہ ہم سب ایک ریاست کے شہری ہیں، برابر شہری" اس حوالے سے اپنی تقریر میں انہوں نے برطانیہ کے ماضی کی مثال دی تھی جہاں رومن اور پروٹسٹنٹ عیسائی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے لیکن برطانیہ نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کا قیام ممکن بنایا جہاں کوئی رومن یا پروٹسٹنٹ نہیں بلکہ سب برابر کے شہری ہیں۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ رومن یا پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے اپنے مذہبی عقائد کو چھوڑ دیا بلکہ انہوں نے اپنے عقائد کے باوجود ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جہاں دونوںبرابری کی بنیاد پر زندگی گزار سکیں۔
قائد اعظم نے اپنی تقریر میں اسی مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید کہا تھا کہ" آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بطور ریاست کے شہری ، سیاسی اعتبار سے ہندو ، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان ، مسلمان نہیں رہیں گے، مگر ایسا مذہبی حوالے سے ممکن نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کے ذاتی اعتقادکا معاملہ ہے " قائد اعظم کی تقریرپر بہت اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بالخصوص تقریر کے اس حصے کے حوالے سے آج بھی متضاد آرا موجود ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس تقریر میں کی جانے والی بات میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش موجود نہیں۔ یہ ایک انتہائی سادہ مگر بنیادی بات ہے جسے چند افراد کے عدم تحفظ کے احساس نے متنازع بنا دیا۔ کوئی بھی ایسی ریاست جہاں شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل نہ ہوں، جہاں انہیں مذہبی آزادی اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے برابر کے مواقع میسر نہ ہوں ، جہاں معاشرتی وسائل پر ان کا حق نہ ہوزیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہ سکتی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے ہولی کے موقع پر اپنی تقریر میں اسی سے ملتی جلتی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنا جرم ہے اور تمام پاکستانیوں کو کسی مذہبی تفریق کے بغیر ترقی کے مواقعوں کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنت دوزخ کا فیصلہ کرنے والوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں ایک اور اہم بیان جامعہ نعیمیہ میں تقریب کے دوران دیا۔ جس میں انہوں نے عدم برداشت ، رواداری، تحمل، حقوق العباد اوراعتدال کی بات کی ۔ انہوں نے علماء پر زور دیا کہ وہ فتویٰ بازی سے آگے بڑھ کر حقیقی اسلامی تعلیمات کے خلاف جھوٹے پرو پیگنڈے کو زائل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ واریت کے منفی جذبے کو ہوا دے کر اور جہاد کے حقیقی پیغام کو مسخ کر کے دنیا میں انتہا پسندی بڑھائی گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ علماء کے کردار کے بغیر معاشرے میں انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن نہیںکیونکہ ان کے پاس لاکھوں مساجد ہیں جہاں سے وہ روزانہ درس کے ذریعے کھل کر انتہا پسندی کی مخالفت کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ کیا لفظ مذہب ،انتہا پسندی کے ساتھ استعمال کیا جانا چاہئے یا نہیں؟ جب تک ان کے ذہنوں میں یہ فرق موجود رہے گا تبدیلی کا عمل ممکن نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کا ایک کردار ہے جس میں انہیںاپنے مدارس کے اندر دی جانے والی تعلیم میں بھی تبدیلی کرنا ہو گی۔ تب جا کر اگلے دس بیس سال میں شاید ہم وہ حاصل کر سکیں جس کی خواہش نواز شریف کر رہے ہیں۔
دوسری جانب بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا حکومتی عمل، وزیر اعظم کی تقریر کے مطابق ہے؟ غیر ذمہ دار حکومتی وزراکے ـ" حجاب پر پانچ زائد نمبر یا پانچ فیصد زائد حاضری" جیسے بیانات ایک ایسے پینڈورا باکس کو کھول دیتے ہیں جس کا اندازہ اخبارات میں مختلف تحریروں اور تجزیوں سے بخوبی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا ان افراد اور تنظیموں کے خلاف ایکشن نہ لینا جو کھلے عام قتل کے فتوے جاری کرتی ہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے ان نکات پر عملدرآمد نہ ہونا جو انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے اقدامات تجویز کرتے ہیں، وزیراعظم کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتے۔اسی طرح اقلیتوں کو محفوظ بنانے یا ان کو ترقی کے برابر مواقع فراہم کرنے کے لئے کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آتے۔ یہ درست ہے کہ علماء کا معاشرے میں وسیع کردار ہے، مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد مذہبی معاملات پر رہنمائی کے لئے علماء کی طرف دیکھتے ہیں۔روادار معاشرے کا قیا م اور انتہا پسندی کا خاتمہ، علماء کے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر عوام کو رہنمائی فراہم کرنے کے بغیر ممکن نہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست دو کشتیوں میں سوار ہو کر علماء سے کردار ادا کرنے کی توقع نہیں رکھ سکتی۔ وزیر اعظم کی تقریر قابل ستائش ہے کیونکہ یہ ایک ایسے پاکستان کی امید دلاتی ہے جہاں مذہب خوف نہیں بلکہ بھائی چارے، رواداری، برداشت اور حقوق العباد کی علامت ہو گا، جو در حقیقت اسلام کی اصل روح ہے۔ مگر ایسا عمل کے بغیر ممکن نہیں!
ہمیں عدم برداشت کے رویہ کو ترک کر کے ایک ایسے معاشرے کی جانب بڑھنا ہے جہاں عقیدہ اور مذہب کی بناپر کسی کی جان کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ جہاں تمام مذاہب، عقائد اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہمی رواداری اور ہم آہنگی کے جذبے کے تحت آگے بڑھ سکیں۔ہم نے ہندوستان سے آزادی اس لئے حاصل کی تھی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ اقلیت ہونے کے ناتے ہم یہاں محفوظ نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اس سوال کا جوب دینا ہو گا کہ اگرہم نے اپنے ملک میں اقلیتوں سے وہی سلوک کرنا تھا جس سے ڈر کر ہم نے آزادی حاصل کی، ایک دوسرے کے فرقوں کے خلاف کفر کے فتوے دینا تھے تو ہمارا آزادی حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا؟
میں اس مسئلہ پر حکومت کے قول و فعل میں تضاد پر زیادہ تنقید کرنے کی بجائے اس امید پر اختتام کرنا چاہوں گا کہ وزیر اعظم پاکستان کا یہ بیانیہ مستقبل میں حکومتی عمل کی نوید ہے۔۔۔ کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو انتہا پسندی کا اژدھا ہم سب کو نگل جائے گا۔

.
تازہ ترین