• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جبراً مذہب تبدیل کرنا جرم، دنیا میں جنت و دوزخ کا فیصلہ کرنے والوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیں گے، یہ ہمارا کام نہیں، پاکستان مذہبی تصادم روکنے کیلئے بنایا گیا، ہم سب اللہ کی مخلوق ہیں، ہر مذہب کے لوگ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں، کوئی اللہ کہتا ہے، کوئی خدا، کوئی بھگوان اور کوئی ایشور لیکن تمام مذاہب کا درس انسانیت کا احترام ہے، مساجد ، گرجا گھروں، مندروں اور دیگر عبادت گاہوں کا تحفظ کریں گے، کسی مذہب کے خلاف خیالات گری ہوئی سوچ ہے، گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کو انجام تک پہنچائیں گے، وزیراعظم پاکستان کے خطاب کا خلاصہ جو اس اخبار کی شہ سرخی بنا۔ ایک سو انسٹھ برس ہوئے ، ایک خطاب نے انسانی تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ ملاحظہ ہو ’’افشاں حقیقت۔ جسے جنت میں موجود ہمارے خداوند نے اتنا واضح کر دیا کہ ہم سب اسے محسوس کرتے ہیں، اس کا ادراک رکھتے ہیں، یہاں تک کے پست ترین سطح پر درندے اور رینگنے والے کیڑے بھی۔ایک چیونٹی، جس نے محنت کی اور ایک ریزپارہ گھسیٹ کر اپنی بل تک لے کر گئی، اپنی محنت کے پھل کی حفاظت کیلئے کسی بھی لٹیرے سے غضب ناک طریقے سے لڑے گی۔یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ سب سے بدھو اور بے وقوف انسانی غلام جو اپنے مالک کیلئے محنت کرتا ہے، کا بھی مسلسل ادراک رہتاہے کہ اسکے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت اتنی صادق ہے کہ کوئی بھی شخص، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، اس کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرتا ماسوائے خالصتاً خودغرضانہ وجوہات کے۔ خصوصاً جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے ہاتھوں انسان کی غلامی کی اچھائیو ں کو ثابت کرنے کیلئے جلدوں پر جلدیں لکھی جا رہی ہیں لیکن آپ کو کبھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا، جو غلام بن کر اس اچھائی کوخود اپنا لے۔
دنیا میں زیادہ تر حکومتیں تمام انسانوں کو برابر حقوق دینے کے اصول سے انکار پر قائم ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا، لیکن ہماری حکومت کاآغاز ہی ان حقوق کو تسلیم کرنے سے ہوا۔ مخالفین کہتے ہیں کہ کچھ انسان اتنے گنوار اور وحشی ہوتے ہیں کہ انہیں حقِ حکمرانی میں حصہ دار نہیں بنایا جاسکتا۔ ہم کہتے ہیں، شاید ایسا ہی ہو لیکن تم لوگوں نے جو نظام وضع کیا ہے وہ تو انہیں ہمیشہ کیلئے گنوار اور وحشی ہی بنائے رکھے گا۔ہم کہتے ہیں کہ سب کو مواقع ملنے چاہئیںاور ہم توقع کرتے ہیں کہ اس طرح کمزور بتدریج طاقتور ہو ں گے، جاہل بتدریج سمجھدار بن جائیں گے، اس طرح ہم سب ملکر پہلے سے بہتر اور پہلے سے زیادہ خوش قوم میں تبدیل ہو جائیں گے۔
ہم نے اس اصول کا تجربہ کیا اور اسکا صلہ ہمارے سامنےہے۔اسےدیکھو۔اسکے بارے میں سوچو۔اس تجربے کی مجموعی شان و شوکت پر غور کرو، ہمارا ملک کتنا وسیع ہوگیا ہے، ہماری آبادی کتنی پھلی پھولی ہے، ہم نے کیا کیا کچھ بنایا ہے، بحری جہاز، بھاپ سے چلنے والی کشتیاں، ریل گاڑیاں۔۔۔۔‘‘
یہ خطاب، ستائیس فقروں کا یہ خطاب جو ابراہم لنکن نے اپنے سینیٹ کے انتخاب کی مہم کے دوران کیا ،تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔ابراہم لنکن نے امریکہ سے انسانی غلامی کے خاتمے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا اور امریکہ کی اشرافیہ کی سخت ترین مخالفت کے باوجود اور امریکی تاریخ کی خون آشام خانہ جنگی جو صر ف اسی مسئلے پر لڑی گئی،کے بعد امریکہ سے انسانی غلامی کی لعنت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ابراہم لنکن کی کوششوں سے آج پوری دنیا میں تما م انسانوں کی برابری اور ان کے مساوی حقوق کو ایک بنیادی انسانی حق تصور کیا جاتا ہے۔
چند روز ہوئے، برادرم آصف محمود نے اپنے ٹی وی پروگرام ’’انیلسس وِد آصف‘‘ میں دعوت دی ۔ وہاں بات موضوع سے ہٹ کر سیکولر ازم اور لبرل ازم کی تعریف کی طرف نکل گئی ۔ میر ی رائے قارئین کو معلوم ہے کہ میں سیکولرازم اور لبر ل ازم کو انسان دوست افکار گردانتا ہوں۔ ایک دوسرے شریک گفتگوبحث کو پاکستان کی تاریخ کی نمایاں شخصیات راجہ پورس اور رنجیت سنگھ کی طر ف لے گئے اور فرمانے لگے کہ چونکہ پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیااس لئے کوئی غیر مسلم کسی پاکستانی کاہیرو نہیں ہو سکتا۔ میرا کہنا تھا کہ یہ اختیار ہر انسان کا ذاتی اختیار ہے کہ وہ کس کو اپنا ہیرو بنائے، اور کوئی نظریہ اس ذاتی چوائس پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔راجہ پورس نے جو اس مٹی کا باسی تھا، ہزاروں سال پہلے سکندر اعظم کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ رنجیت سنگھ نے افغان حملہ آوروں کا راستہ روکا جو وقفے وقفے سے پاکستان اور پھر یہاں سے ہندوستان کے علاقوں پر حملہ آور ہوتے اور سب کچھ لوٹ لاٹ کر لے جاتے۔ آج بھی پنجاب کے شعور میں یہ لوک شعر موجود ہے
کھادا پیتا لاہے دا، وادھا احمد شاہے دا
اور آج پاکستان میں جو خیبر پختونخوا اور فاٹا کے علاقے شامل ہیں یہ رنجیت سنگھ نے ہی فتح کر کے ہماری جغرافیائی سرحدوں میں شامل کئے اور افغانستان نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیاتو اسکی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو سرحد ماننے کو تیار نہیں اور اٹک کے پُل تک ہماری ارضِ وطنی کا دعویدار ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں تو دل ہی دل میں ابراہم لنکن کو بھی اپنا ہیرو مانتا ہوں، سائنس کی دنیا میں آئن ا سٹائن، نیوٹن ، ا سٹیفن ہاکنگ جیسے بیسیوں نام، فلسفہ میں برٹینڈ رسل، روسو، مارکس جیسی بہت سے شخصیات کو اتنا پسند کرتا ہوں کہ انہیں ہیرو کہا جاسکتا ہے۔ خیال گزرا کہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے بہت سے اداکار وں اور گلوکاروں کے فن کا بھی شیدائی ہوں کہ شاید وہ بھی ہیرو اور ہیروئن کی فہرست میں شمار ہوں۔ ذہن میں سوال آیا کہ کیا واقعی کوئی نظریہ کسی شہری کی ذاتی پسند نا پسند پر قدغن لگاتا ہے یا پھر میرے دوست کوتحریک پاکستان کے درمیان سامنے آنے والے سیاسی نظریات کو سمجھنے میں غلطی ہوئی؟ یہ بھی خیال گزرا کہ کیا ہماری نصابی کتابو ں میں مسخ شدہ تاریخ پڑھ کر جوان ہونے والی کئی نسلوں کی بھی یہی رائے نہیں ہے؟ انہی سوچوں میں اخبار کی شہ سرخی پر نظر پڑی۔ میں وزیراعظم کا مدح خواہ ہوں نہ میں نے ان کاخطاب سنا۔ نہ ہی ان کے خطاب کے فقرے گنے، لیکن مجھے اسکا خلاصہ پڑھ کر بے اختیار ابراہم لنکن کا ستائیس فقروں والا تاریخی خطاب یا دآ گیا۔

.
تازہ ترین