• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کسی سیاست دان کی نہیں اور نہ ہی کسی مرحوم شخصیت پر کچھ لکھ رہا ہوں بلکہ ملک کے مایہ ناز معالج، مفسر، فرشتہ خصلت انسان ڈاکٹر عبدالرشید سیال کا آپ سے تعارف کرا رہا ہوں۔ یہ ملتان میں ایک اعلیٰ اسپتال سیال کلینک میں انسانیات کی خدمت کررہے رہیں۔ آپ CEO ہیں۔ آپ نے تھیلاسیمیا اور کینسر پر اعلیٰ تحقیق کی ہے۔دیکھئے دنیا ایک جائے عبرت اور جائے تماشہ بھی ہے۔ یہاں انسانوں کی تربیت کیلئے اور ان سے کام لینے کیلئے مختلف طریقہ کار ہیں۔ اس کی ایک جھلک آپ کو ڈاکٹر محمد عبدالرشید سیال کی صورت میں نظر آتی ہے۔ بظاہر آپ ماہر امراض قلب ہیں لیکن مفسرقرآن بھی ہیں۔ آپ نے لباس کے حرکت قلب پر اَثرات کی تحقیق 1980 ءکے آخر میں شروع کی۔ آپ کی اس تحقیق اور نتائج کو دنیا میں بہت پذیرائی ملی۔ ان کی تحقیق کہ مصنوعی ریشے کا لباس انسانی اعصاب پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے آپ نے اس پر مختلف تحقیقی مقالے لکھے جن میں دل کی رفتار میں بے ربطگی، حرکت قلب کا اچانک رُک جانا (ہائی بلڈ پریشر، Psychosomatic cardiovascular دل کے دورے کا ممکنہ سبب اور ایسے ہی بیشمار مقالے لکھے ہیں جو انھوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پیش کئے اور پزیرائی حاصل کی۔ مارچ 1986 میں ڈاکٹر سیال کو ’’امریکن سوسائٹی آف اِنوائرمنٹل میڈیسن‘‘ نے ٹیکساس میں مدعوکیا اور جس میں خصوصی طور پر لباس کے حرکت قلب پر اثرات سے متعلق آپ نے اپنی تحقیق اور نتائج سے حاضرین کو متعارف کیا۔ 1988 میں ڈاکٹر سیال فیلوشپ پر امریکہ گئے، وہاں ان کو امریکن سوسائٹی آف نیوکلیر فزکس کے ممبران نے خصوصی طور پر مدعو کیا تھا۔ وہاں ڈاکٹر وِلسن، ڈاکٹر کارمک اور ڈاکٹر فانولر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر سیال امریکہ سے باہر نوبل پرائز یافتہ سائنسدانوں میں اکیلے ہی ڈاکٹر تھے جنہوں نے مصنوعی لباس کی وجہ سے حرکت قلب اچانک بند ہوجانے پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ تقریب کے آخر میںڈاکٹر فانولر نے ڈاکٹر سیال کے پیپر پر خاص طور پر توجہ دلائی اور الیکٹرواسٹیٹک چارج کے حرکت قلب پر مضر اثرات کو سراہا اور کہا کہ بچوں کے وہ اسکول جن کے پاس سے یا اوپر سے ہائی ٹینشن تار گزرتے ہیں ان میں خون کے کینسر کا امکان بہت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر سیال کی کتابیں Coronary Risk, New Perspective, Garments & Human Health, Smart Living, Unexplained Sleep Death, Engine of Sudden Cardiac Death کا ذکر کیا جن میں خصوصی طور پر بغیر کسی وجہ کے حرکت قلب بند ہونے پر خصوصی بحث اور توجہ دلائی گئی ہے۔ اس آخری کتاب کو امریکن کالج آف کارڈیالوجی نے ریسرچ سائنٹسٹ آف دی اِیئر کے منتخب کیا۔ ڈاکٹر سیال کی یہ کتب امریکہ اور انگلستان میں بیک وقت شائع ہوئی ہیں۔ڈاکٹر سیال کا روحانی سفر 9/11 کے واقعہ کے بعد شروع ہوا وہ اس دن امریکہ میں تھے۔ میڈیا پر اسلام کے خلاف زہر اُگلتا سن کر وہ سخت پریشان ہوئے اوراللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا مانگی کہ وہ ان کو مغربی دنیا میں قرآن کا پیغام ان کی ہی زبان و دلائل میں پیش کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کی پہلی کتاب جو 2003 میں شائع ہوئی اس کو نیویارک ٹائمز نے بہت سراہا اور کمنٹری (ریویو) لکھ کر بہت تعریف کی۔ ڈاکٹر عبدالرشید سیال صاحب ستارۂ امتیاز کی کتاب ’’رموز تخلیق‘‘ کا دوسرا ایڈیشن اسلام آباد سے چھپ کر آچکا ہے۔ اس کتاب کا موضوع قرآن مجید اور سائنسی علوم میں غور و فکر کرکے جدید سائنس کے چیدہ چیدہ نظریات اور تسلیم شدہ حقائق کی قرآن مجید کے مندرجات میں مطابقت تلاش کرنا ہے اور اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ انسان اس کائنات کے بارے اب تک جو کچھ سمجھ پایا ہے وہ کس حد تک درست اور نادرست ہے اور اللہ کی کتاب اس پر ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے۔ اس ضمن میں نفس مضمون کی تفہیم و تشریح کیلئے جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے دیئے گئے اور دلیل و ثبوت کے طور پر قرآنی آیات پیش کی گئی ہیں۔ اس کیلئے سائنس کے بعض انتہائی پیچیدہ نظریات اور گہری تحقیقات کو قرآن مجید کے متن کی روشنی میں پرکھا گیا اور کلام پاک کی وسعت علمی اور سائنس کی تنگ دامانی کا بچشم بصیرت مشاہدہ کیا گیا اور پھر اہل علم اور سائنسدان حضرات کو اس الہامی کتاب سے استفادہ کرنے کیلئے نہ صرف یہ کہ دعوت فکر دی گئی بلکہ اس سلسلے میں ان کی رہنمائی بھی کی گئی ہے۔
اس کتاب کے کل دس ابواب ہیں جن میں سے اکثر کا ہم فرداً فرداً مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’’قرآن ایک معجزہ‘‘ اس میں مختلف احکام و اعمال کا سائنسی تجزیہ پیش کیا ہے مثلاً: مسجد میں جاتے وقت دایاں پائوں پہلے کیوں داخل کیا جانا چاہئے، وضو کے روحانی اور طبی فوائد کیا ہیں۔ اس کے علاوہ نماز کے تمام ارکان کے طبی اور سائنسی فوائد تحریر کئے ہیں۔ دوسرا باب اس موجودہ ایڈیشن کا خاصہ ہے، پہلے ایڈیشن میں یہ نہیں تھا۔ اس کا عنوان ہے ’’سفر حیات‘‘۔ اس باب میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے چیدہ چیدہ مخفی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے اور اپنی روحانی وارداتوں کا کچھ تذکرہ بھی کیا ہے جس سے پڑھنے والے کو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی تعمیر اور نشوو نما کے پیچھے کارفرما محرکات اور عوامل کا کچھ اندازہ بھی ہوتا ہے اور بعض مضامین کے ورود کا پس منظر جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔ تیسرا باب ’’ایمان بالغیب‘‘ اس کا مرکزی خیال ہے ’’تخلیق کا عمل کیوں ایک خالق کے بغیر ممکن نہ تھا‘‘۔ اس میں اللہ رب العزت کے وجود کو ثابت کرنے کیلئے مختلف دلائل کو جمع کیا گیا ہے جس میں سے بعض فلسفہ و منطق اور بعض سائنسی حقائق پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں پلینک ٹائم کا ذکر ہے جس کا اندازہ لگاتے ہوئے انسان مبہوت رہ جاتا ہے یعنی گیارہ ارب سالوں میں جتنے سیکنڈہوتے ہیں اور اسی نسبت (Atto Second) ہوتے ہیں، صرف ایک سیکنڈ میں اس سے زیادہ ایٹو سیکنڈ سے ایک ایٹو سیکنڈ میں پلینک ٹائم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے ’’لمحہ کُن‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور پھر اس کی مزید وضاحت بھی کی ہے۔ چوتھا باب ’’قرآن اور فلسفہ کائنات‘‘ ہے۔ یعنی یہ کائنات کیونکر وجود میں آئی، کائنات کا نظام کس طرح چل رہا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟ یعنی یہ کائنات کس طرح اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ اس بابت قرآن اور جدید سائنس کہاں مختلف اور کہاں متفق ہیں اور قرآن مجید اس موضوع پر سائنس دانوں کی رہنمائی کس طرح کرتا ہے۔پانچواں باب ’’واقعۂ معراج‘‘ سے متعلق ہے۔ اس میں ورم ہولز تھیوری کو زیر بحث لایا گیا ہے کہ کس طرح آسمان میں ایسے راستے اپنا وجود رکھتے ہیں جن سے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کیا جاسکتا ہے اور حضور نبی کریم ﷺ نے ممکنہ طور پر شب معراج انہی راستوں سے سفر کیا۔ اس باب میں فرشتوں کی رفتار کا اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی گئی ہے جو کہ قاری کیلئے بہت ہی دلچسپ ہوسکتی ہے۔چھٹا باب ’’قرآن اور تخلیق آدم‘‘ ہے۔ یہ بھی انتہائی دلچسپ باب ہے جس میں روئے زمین پر انسان کی تخلیق کی ابتدا، حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش پر قرآن کریم اور جدید سائنس کے تناظر میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے امریکی سائنس دانوں کی توجہ قرآن مجید کی بعض آیات کی طرف مبذول کروائی جس سے تین سال کی تحقیق کے بعد روئے زمین پر انسانی تخلیق کی ابتدا کے بارے میں کلیدی معلومات حاصل ہوپائیں۔ طین اور تراب کے معانی کا باریک فرق، اور پھر قرآن پاک کی آیتوں پر گہرے غور و فکر کے بعد ان کے سائنسی معانی متعین کرنا اس باب میں ایک خاصے کی چیز ہے۔ ساتواں باب ’’قرآن اور فلسفہ حیات‘‘ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ انسانی زندگی دراصل تین عناصر سے ترتیب دی گئی ہے۔ ایک مٹی، دوسری روح اور تیسری سب سے افضل ہماری ذہنی قابلیت یا دانش ہے۔ اور پھر اس بات کی وضاحت سائنس اور قرآن کریم کی روشنی میں کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ کیوں چار ماہ کے بعد اسقاط حمل قتل کے مترادف ہے اس سے پہلے نہیں جبکہ ماں کے پیٹ میں بچے کے دل کی حرکت چھٹے ہفتے ہی میں شروع ہوجاتی ہے۔ آخری باب ’’کُن فَیَکُوْن‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے قرآن پاک کی کچھ آیات کریمہ اور چند وظائف درج کئے ہیں جو انسان کیلئے ہر دکھ اور تکلیف کی حالت میں سکھ اور سکون کا باعث ہوسکتے ہیں۔الغرض یہ تصنیف ایسی معلومات اور انکشافات سے پُر ہے جس سے انسانوں کو ایک نئی بصیرت حاصل ہوتی ہے اور اُس پر فکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ قرآن حکیم جس مقصد کیلئے نازل ہوا تھا، امت مسلمہ نے آج اُسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگر قرآن کو سمجھ کر پڑھا جاتا اور اس کے کلمات پر اور آیات پر غور کیا جاتا اور عمل کیا جاتا، تو امتِ مسلمہ آج جس طرح گری پڑی دکھائی دیتی ہے، وہ کبھی نہ گرتی اور سر اُٹھا کر دوسری ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلتی، بلکہ ان کی رہنمائی کرتی۔

.
تازہ ترین