• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی وفاقی حکومت کا مستقبل کیا ہے ؟ اس وقت اس سوال کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ بے یقینی کی صورت حال ہے کیونکہ ابھی تک ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آئی ہے اور پاناما لیکس کے حوالے سے کیس پر سپریم کورٹ کے محفوظ فیصلے کا بھی تاحال اعلان نہیں ہوا ہے۔ ان دونوں معاملات سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کے مستقبل کا پتہ چل سکے گا۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے ہونا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی کس کی ذمہ قرار دی جائے اور دہشت گردوں کے خلا ف نئے فوجی آپریشن ’’ رد الفساد ‘‘ کو فیصلہ کن آپریشن بنانے کی حکمت عملی کیا ہو۔ دوسری طرف Memogate اور ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی ایک طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہے اور ان دونوںکا بھی قوم کو شدت سے انتظار ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ اس ایڈہاک ازم کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف پوری قوم ’’ کیا ہوانے والا ہے ؟ ‘‘ کے سوال کی تکرار میں مصروف ہے بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) میں شامل چین سمیت دیگر انٹرنیشنل اسٹیک ہولڈرز بھی بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی اعصاب شکن صورت حال کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنا پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہے۔ اس صورت حال کا جلد سے جلد خاتمہ ہونا چاہئے اور دنیا کو پتہ چلنا چاہئے کہ پاکستان میں جمہوری اور سیاسی عمل کیا رخ اختیار کر رہا ہے۔ اتنے سنگین معاملات کو لٹکا کر رکھنے سے پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے۔ ان معاملات سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے انہیں ’’ نان ایشوز ‘‘ میں الجھایا جا رہا ہے، جس سے مزید سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
توقع ہے کہ پاناما لیکس کے حوالے سے کیس کا فیصلہ اسی ہفتے آ سکتا ہے۔ اس فیصلے میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت غلط بیانی پر کوئی سزا بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی امکان موجود ہے کہ شریف خاندان لندن فلیٹس کے معاملات سے وزیر اعظم کا کوئی تعلق نہ جوڑا جائے لیکن فیصلہ کچھ بھی ہو، اس پر ایک سیاسی طوفان کھڑا ہو سکتا ہے۔ فیصلے کے سیاسی اثرات کا اندازہ فیصلہ آنے کے بعد ہی موجودہ حکمرانوں کو ہو گا۔ امید یہ کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ پاناما لیکس کا محفوظ فیصلہ سنانے میں زیادہ تاخیر نہیں کرے گی۔ اس سے زیادہ سنگین معاملہ ڈان لیکس کا ہے۔ وفاقی حکومت ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے اور اس حوالے سے تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا، جس کی تحقیقات پر زیادہ وقت لگایا جاتا۔
6اکتوبر 2016ء کو انگریزی روزنامہ ’’ڈان‘‘ میں ایک اہم سیکورٹی اجلاس کے حوالے سے خبر شائع ہوئی تھی۔ یہ اجلاس ایوان وزیر اعظم میں منعقد ہوا، جس میں اعلیٰ سویلین اور ملٹری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے بارے میں خبر کی ساخت اس طرح تھی کہ جس سے یہ محسوس ہور ہا تھا کہ یہ خبر جان بوجھ کر چلوائی گئی ہے۔ خبر دینے والے رپورٹر ایک سینئر صحافی ہیں لیکن خبر کے مندرجات سے بالکل واضح تھا کہ خبر بناتے وقت پیشہ ورانہ صحافتی تقاضوں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس خبر میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔ اس خبر سے پوری د نیا میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس پر سیکورٹی اداروں کاجو ردعمل سامنے آیا وہ فطری تھا۔ جس میں اس خبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا اخبار کو غلط اور من گھڑت اسٹوری ’’ فیڈ ‘‘ کی گئی اور یہ بات قومی سلامتی کے خلاف ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے پانچ مرتبہ اس خبر کی تردید کی گئی لیکن جب مختلف اداروں کی جانب سے خبر ’’ فیڈ ‘‘ کرنے کے شواہد دیئے گئے تو وفاقی حکومت دفاعی پوزیشن پر چلی گئی۔ 7نومبر 2016ء کو جب ڈان لیکس کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی تو اس کمیٹی کو تحقیقات کے لئے کچھ زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پرویز رشید کی برطرفی کے بعد تحقیقات کا رخ متعین ہو چکا تھا۔ کمیٹی کے سربراہ جسٹس (ر) عامر رضا خان کو بنایا گیا، جس پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور بعض حلقوں نے اعتراض کیا کیونکہ عامر رضا خان کو شریف خاندان کا بہت قریبی تصور کیا جاتا ہے۔ 2013 ء میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے شریف خاندان نے ان کا نام تجویز کیا تھا ان کے نام پر اس لئے اعتراض کیا گیا تھا کہ ان کے تجویز کنندگان شریف برادران ہیں۔ عامر رضا خان کی صاحبزادی اتفاق فاؤنڈیشن کے ایک ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہیں۔ اسکے باوجود تمام حلقوں نے تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ کے طور پر عامر رضا خان کو اعتراضات کے باوجود قبول کیا۔ اس کا صرف ایک سبب ہے۔
وہ یہ کہ ڈان لیکس تحقیقاتی کمیٹی کے لئے مختلف اداروں کی طرف سے دیئے گئے شواہد کو مسترد کرنا ممکن نہیں تھا۔ کمیٹی کو اپنی رپورٹ ایک ماہ میں پیش کرنا تھی۔ کمیٹی نے رپورٹ پیش کرنے کی تاریخ میں مزید ایک ماہ کی مہلت حاصل کر لی۔ مقررہ مدت اور مہلت والی مدت کو ختم ہوئے بھی ڈھائی ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اب اس رپورٹ کو جاری نہ کرنے کا کوئی اخلاقی، قانونی اور سیاسی جواز نہیں ہے۔ رپورٹ منظر عام پر آنی چاہئے اور پاکستان کو غیر یقینی کی صورت حال سے نکلنا چاہئے۔ میری دانست میں یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ رپورٹ میں تاخیر کے اثرات بھی تشویش ناک ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے معاملے میں بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بہت تاخیر سے فیصلہ کیا۔ اس تاخیر کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ پاناما اور ڈان لیکس کے ایشوز پر بھی فوری فیصلوں کی ضرورت ہے۔ تاخیر کیلئے نان ایشوز کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ آئندہ عام انتخابات کو صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے۔ معاملات کو لٹکانے سے وہ سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہوسکے گا، جو عام انتخابات سے پہلے ہونا چاہئے۔ اس بات کو دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ غیر یقینی کی صورت حال ختم ہو۔ سی پیک میں ملکی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز اس غیر یقینی کی صورت حال میں کوئی بھی ایسا فیصلہ کر سکتے ہیں، جو ہمارے حق میں نہ ہو۔ ڈان لیکس کا معاملہ ہو یا پاناما لیکس کا پوری قوم تشویش میں مبتلا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ غیر یقینی کی اس کیفیت سے قوم کو نجات دلائی جائے۔

.
تازہ ترین