• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری قوم کی نظریں پاناما کیس کے فیصلے پرہیں جسے سپریم کورٹ کی لارجر بنچ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد 23فروری کو محفوظ کر لیاتھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تبدیلی کے بعد مقدمے کی چھبیس سماعتیں ہوئیں اور مقدمے کی کاروائی مکمل ہونے پر لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فرمایا تھا کہ عدالت عظمی اس مقدمے میں مختصر فیصلہ جاری نہیں کرے گی بلکہ کچھ وقت لے گی اور ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔ ہر ذی شعور یہ ادراک رکھتا ہے کہ ملکی تاریخ کے اس انتہائی اہم مقدمہ کا فیصلہ پاکستان کی سیاست پردور رس اثرات مرتب کرے گا اور جب یہ محفوظ فیصلہ سنایا جائے گا تب کئی بڑے لوگوں کی سیاست غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ایک طرف عدالت عظمیٰ بیرون ملک قائم کی گئیں آف شور کمپنیوں اور ان کے ذریعے خریدی گئی مہنگی جائیداد کا حساب لے رہی ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈارسوئس حکام کے ساتھ دہرے ٹیکسوں سے بچائو کے نئے معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔ 2005میں کئےگئے معاہدے میں ترامیم کے بعد اب پاکستان اس قابل ہو جائے گا کہ سوئس بنکوں میں موجود اس تمام دولت کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے جو پاکستانیوں نے ٹیکس سے بچنے یا ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے کے بعد سات سمندر پار چھپا رکھی ہے۔ ستمبر 2013 میں وفاقی وزیر خزانہ اور موجودہ ن لیگی حکومت کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ جب وہ بیرون ملک سرمایہ کاری اور اثاثوں کا سراغ لگانے کے لئے سوئس حکام کے ساتھ ٹیکسوں کے معاہدے میں ترامیم کی منظوری دے رہے ہوں گے اس کے ڈھائی سال بعد ان کے اپنے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو اسی پاداش میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہو گا۔ سوئس حکومت کے ساتھ اپنی شرائط پر معاہدہ کرنے کو اہم کامیابی قرار د یتے ہوئےوفاقی وزیر خزانہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاناما کیس کا فیصلہ کسی بھی طرح اس معاہدے پہ اثر انداز نہیں ہو سکے گا اور بھرپور طریقے سے اس پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ ماضی میں قومی احتساب بیورو کی طرف سے متعدد بار سوئس حکام سے مخصوص پاکستانی شہریوں سے متعلق معلومات لینے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن سوئس قوانین کے تحت یہ معلومات فراہم کرنے سے انکارکیا جاتا رہا۔ دہرے ٹیکسوں سے بچائو کے معاہدے میں نئی شق شامل کرنے کے بعد اگرچہ پاکستان کسی مخصوص فرد کے متعلق مخصوص معلومات حاصل کرنے کا اہل ہو جائے گا لیکن یہ معلومات صرف متعلقہ حکام یا عدالتوں کو ہی فراہم کی جائیں گی جبکہ پاکستانی حکام کو کسی بھی شہری کے بنک اکاونٹس کے بارے میں معلومات لینے کیلئے ٹھوس ثبوت فراہم کرنا ہوں گے۔ معلومات حاصل کرنے کیلئے سوئس حکام کو یہ بھی باور کرانا ہو گا کہ یہ اقدام کسی سیاسی فائدے یا کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کیلئے نہیں اٹھایا جا رہا بلکہ اس کا مقصد عوامی یا ملکی مفاد ہے۔ بلا شبہ پاکستان اور سوئس حکومت کے درمیان ٹیکسوں سے متعلق نئے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سوئٹزرلینڈ اپنی خوبصورتی کے باعث صرف سیاحوں کیلئے جنت کہلائے گا لیکن سوئس بنکس پاکستانیوں کیلئے ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت کو چھپانے کیلئے جنت نہیں رہیں گے۔ کئی حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کالی کمائی کو سوئس بنکوں میں چھاپنے سے روکنے کیلئے جس معاہدے پرگزشتہ تین سال سے مذاکرات کا شور مچایا جا رہا تھا کیا اس معاہدے پردستخط تک شاطر پاکستانی شہریوں نے اپنی بلیک منی کو ابھی تک وہیں رکھ چھوڑا ہو گا۔اب تک تو سب پربھاری ایک سیاست دان نے بھی اپنے ان 60 لاکھ ڈالرز کو محفوظ کرنے کا بندوبست کر لیا ہو گا جن کو ن لیگ کے رہنماوں کی طرف سے واپس پاکستان لانے کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ جس پارٹی قیادت نے سوئس بنک میں موجود جس رقم کی خاطر اپنے وزیر اعظم کی قربانی دے دی ہو وہ ن لیگ کے وزیر خزانہ کو اس رقم تک پہنچنے دے گی،دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔ رہی بات ان 200 ارب ڈالر کی جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ ستر کی دہائی سے اب تک پاکستانی سیاست دانوں، بیوروکریٹس،تاجروں،متمول شہریوں اور دہشت گرد گروہوں نے سوئس بنکوں میں چھپا رکھے ہیں،ان کی بھی تاحال سوئس بنکوں میں موجودگی کا امکان کم ہی ہے کیوں کہ سوئس حکومت دو سال قبل اپنے قوانین میں ایسی ترامیم متعارف کرا چکی ہے جس کے بعد ناجائز ذرائع یا منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل کی گئی رقم کو سوئس بنکوں میں چھپانا آسان نہیں رہا تھا۔ سوئس حکومت کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر بنک اکائونٹ آپریٹ کرنے پر قدغن لگانے جیسے اقدامات کے باعث بھی ناجائز دولت کو وہاں چھپانا خاصا مشکل ہو چکا ہے۔ سوئس حکومت کے ساتھ نئے ٹیکس معاہدے سے بھی زیادہ کار آمد اقدام آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ( او ای سی ڈی ) کے ٹیکسوں کے معاملات سے متعلق ملٹی لیٹرل کنونشن پر دستخط کرنا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں اس گلوبل فورم کا رکن بننے کے بعد پاکستان ان 135 رکن ممالک میں شامل ہو چکا ہے جن کے درمیان آئندہ سال جنوری سے معلومات کے خود کارنظام کے تحت تبادلہ شروع ہو جائے گا۔
اس فورم کی رکنیت حاصل کرنے کیلئے پاکستان نے تقریبا بائیس ماہ میں درکار تقاضے احسن طریقے سے پورے کئےہیں جن میں انکم ٹیکس کے قوانین میں ترامیم بھی شامل ہیں۔ اس گلوبل فورم کے تحت رکن ممالک دو طریقوں سے معلومات حاصل یا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کر سکیں گے۔ ایک طریقے کے تحت درخواست کے ذریعے کسی بھی رکن ملک سے درکار مخصوص معلومات حاصل کی جا سکیں گی جبکہ دوسرے طریقے کے تحت رکن ممالک کے درمیان خود کار نظام کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ممکن ہو گا۔ اب تک گلوبل فورم کے تمام 135 ممالک پہلے طریقے یعنی ایکسچینج آف انفارمیشن آن ریکویسٹ پر فوری عمل درآمد کی یقین دہانی کرا چکے ہیں تاہم دوسرے طریقے آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن کے ذریعے معلومات فراہم کرنے کیلئے 90 ممالک نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جولائی 2017 ءسے اس پر عمل شروع کر دیں گے۔ان میں برٹش ورجن آئی لینڈ،کوک آئس لینڈ، سنگاپور،سی شیلز جیسے وہ ممالک بھی شامل ہیں جو آف شور کمپنیوں کیلئے سب سے محفوظ مقامات سمجھے جاتے ہیں۔ او ای سی ڈی کے چالیس سے زیادہ رکن ممالک وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ 2018 سے آٹومیٹک طریقے کے ذریعے معلومات فراہمی کے میکانزم پر عمل درآمد شروع کر دیں گے ان میں سوئٹزرلینڈ اور پاناما بھی شامل ہیں جن میں پاکستانیوں کے بنک اکاونٹس اور آف شور کمپنیوں کے چرچے عام ہیں۔ اس طرح او ای سی ڈی کے گلوبل فورم کا رکن بننے کے بعد اب آئندہ سال جنوری سے دنیا کے سو سے زائد ممالک میں موجود کسی بھی پاکستانی شہری کے بنک اکاونٹس،آف شور کمپنیوں، سرمایہ کاری اوراثاثہ جات کی تفصیلات از خود حکومت کے پاس پہنچ جایا کریں گی جبکہ حکومت پاکستان کسی مخصوص شہری کے اثاثوں کا سارا ریکارڈ بذریعہ درخواست بھی حاصل کر سکے گی۔ پاکستان نے بھی او سی ڈی کے رکن ممالک کے ساتھ نان ریزیڈنٹس کا ڈیٹا شیئر کرنے کے اقدامات کئے ہیں جن کے تحت ایسے افراد جو دیگر ممالک کے شہری ہیں اور انہوں نے پاکستانی بنکوں میں اکاونٹس کھول رکھے ہیں ان کے بارے میں تمام بنکوں کو ایف بی آر کو تفصیلات فراہم کرنے کا پابند کیاگیا ہے۔ ان تفصیلات کاایف بی آر میں خطیر رقم سے قائم کئے گئے سینٹرلائزڈ نظام کے ذریعے رکن ممالک کے ساتھ تبادلہ کیا جائے گا۔ یو ایس اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے سالانہ دس ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان سے غیر قانونی ذرائع سے بھیجی جانے والی اس رقم کوسوئٹزر لینڈ،برٹش ورجن آئی لینڈ اور پاناما جیسے ممالک میں چھپایا جاتا ہے لیکن روز بروز سخت ہوتے عالمی قوانین کے باعث اب دنیا بھر میں کالے دھن کو چھپانا نا ممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا جا رہا ہے۔ سوئس حکومت کے ساتھ نیا معاہدہ،او ای سی ڈی کے گلوبل فورم کی رکنیت اور چند روز میں سنایا جانے والا پاناما پیپرز کے مقدمے کا فیصلہ قوم کیلئے ایک نئے پاکستان کی بنیاد ثابت ہو گا جس میں کسی خفیہ سرے محل،نیازی سروسز، نیلسن یا نیسکول کی گنجائش نہیں ہو گی۔ان شاء اللہ

.
تازہ ترین