• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب حکومت نے تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانے والے اضلاع میں بچیوں کو تعلیم دینے کیلئے وظائف کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی سلسلے میں جنوبی پنجاب کے 16اضلاع سے ’’ خادم پنجاب زیور تعلیم پروگرام ‘‘ کا آغاز کیا گیاہے، جس میں 4لاکھ 60ہزار طالبات کو ماہانہ ایک ہزار روپے حاضری وظیفہ دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے طالبات میں خدمت کارڈ خود تقسیم کئے اور اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر بااثر طبقے اور اشرافیہ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ’’ غریب طبقے کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو ایسا انقلاب آئے گا کہ سب خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔ اگر اشرافیہ نے رویہ نہ بدلا تو پِسا ہوا طبقہ اس اشرافیہ سے وسائل چھین لے گا۔ قوم کی بیٹیوں کو تعلیم دینے کے پروگراموں کیلئے وسائل کی فراہمی پر تنقید کرنے والی اشرافیہ کی آنکھوں کو دولت کے پردے نے اندھا کر دیا ہے اور دولت کی ریل پیل کے سامنے انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔اس منصوبے پر 6ارب خرچ ہوںگے، اگر 60ارب بھی ہوں تو اپنی بچیوں کے قدموں پر 4نچھاور کر دوں۔‘‘
میں گزشتہ کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ مجھے وزیراعلیٰ کا تعلیم سے یہ ’’ رومانس ‘‘ بہت پسند ہے اور جب وہ اس رومانس میں گم اشرافیہ پر تنقید کے نشتر چلاتے ہیں تو ان سے عوام کا رومانس بھی بڑھ جاتا ہے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ ضمیر اس بات پہ مطمئن نہیں ہوتا اور نہ ہی یقین کرنے کیلئے تیار ہے کہ وزیراعلیٰ اشرافیہ میں سےاپنے آپ کو نکال کیوں دیتے ہیں۔ اگر اُن کی اشرافیہ سے مُراد امیر لوگ ہیں تو پاکستا ن میں بے شمار ایسے امراء ہیں جو خوف خدا رکھتے ہیں اور اس کی راہ میں اپنے وسائل بے دریغ خرچ بھی کرتے ہیں، اگر ان کی مراد حکمرانوں سے ہے تو عوام اس سے اتفاق کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن پر حکمرانی سیاستدان اور بیوروکریٹس کرتے ہیں۔ اس وقت وفاق میں خادم اعلیٰ کے بڑے بھائی اور مسلم لیگ کی حکمرانی ہے جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وہ خود حکمراں ہیں اور ساری بیوروکریسی ان کے ماتحت ہے، اس لئے عوام کا ضمیر تو یہ یقین کرنے کیلئے تیار نہیں کہ خادم اعلیٰ کا شمار اشرافیہ میں نہیں ہوتا۔اس ملک میں جس طرح کا نظام اور حکمرانی ہے اس میں یہ ناممکن ہے کہ اختیارات عوام کے پاس آ جائیں یا اُن کے مسائل حل ہو سکیں،اُن کے مسائل حل بھی اشرافیہ کو ہی کرنے ہیں لیکن فرض کرلیں کہ وزیراعلیٰ اپنے آپ کو اشرافیہ میں شامل نہیں کرنا چاہتے تو اُن کے تعلیم سے رومانس میں اضافے کے لئے عوام بھی کچھ شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم جگہ جگہ ہیلتھ کارڈ تقسیم کررہے ہیں اور خادم اعلیٰ خدمت کارڈ اور لاکھوں لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کا پراسیس شروع ہوچکا ہے کیونکہ اب عام انتخابات کی تیاری ہے۔ اسی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام بھی آپ کو بتانا چارہے ہیں کہ ضلع لاہور کے153سمیت پنجاب کے 23 سو اسکولوں کی عمارتوں کو خستہ حالی کے باعث ناقابل استعمال قرار دینے کے بعد ان کی ازسر نو تعمیر کے لئے حکومت پنجاب نے 8ارب روپے کے فنڈ جاری کئے تھے جو تاحال استعمال نہیں ہوسکے اور ان تمام اسکولوں کی عمارتیں لاکھوں بچوں کی زندگیوں کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ حکومت نے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے اپنی نااہلی چھپانے کے لئے تھرڈ پارٹی کو ہائر کرنے کا فیصلہ کیاہے۔مجھے یاد ہے کہ گزشتہ برس پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا کہ پنجاب میں 57ہزار 998سرکاری اسکولوںمیں15ہزار گھوسٹ ہیں، 6 ہزار دو سو بیس میں پینے کاصاف پانی نہیں، چار ہزار اسکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں، 8ہزار 60اسکولوں کی چار دیواری نہیں، سات ہزار اسکولوں کی عمارتیں خطرناک اور 9سو انتہائی خطرناک ہیں،لیکن آج بھی بہتری کی صورت پیدا نہیں ہوئی، گو وزیراعلیٰ وفاقی تعلیم کے ادارے کی رپورٹ کے ذریعے نوید دے رہے ہیں کہ پنجاب تعلیم میں دوسرے صوبوں سے آگے ہے اور 83ہزار بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کے ہاتھ، قلم کتاب دی گئی ہے، لیکن ایک تازہ ترین پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹک رپورٹ کے مطابق پانچ سے 16سال کی عمر کے دو کروڑ 20لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جبکہ صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر کے 52ہزار تین سو 14اسکولوں میں اساتذہ کی شدید کمی ہے۔ اس میں 46ہزار سے زائد پرائمری اسکول، ساڑھے چارہزار مڈل، چھ ہزار ہائی اسکول اور پونے سات سو ہائر سکینڈری اسکول متاثر ہوئے ہیں اسی وجہ سے گزشتہ برس صوبے کے 5ہزار اسکولوں کے 36ہزار طلبہ و طالبات میں سے کوئی ایک طالب علم بھی33فیصد نمبروں کے ساتھ امتحانات میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کہ پنجاب بھر میں پڑھانے والے کل تین لاکھ 36ہزار اساتذہ میں سے 46ہزار ایک سو دس اساتذہ کی تعلیمی قابلیت صرف میٹرک ہے، ہائر سکینڈری اسکولوں میں پڑھانے والے ایسے اساتذہ کی تعداد 14 سو 49 ہے۔ جبکہ بہت سے پی ایچ ڈی اور ایم فل اساتذہ گریڈ 9میں پرائمری کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں جو شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے کہ غریب بچوں کو وظیفے دیئے جائیں، ذہین طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے جائیں لیکن اس سے پہلے بچوں کی صحت بھی بہت ضروری ہے۔ ورلڈ بنک کے حالیہ سروے کے مطابق اسکول میں جانے والے ایک کروڑ 10لاکھ بچوں میں سے نصف طلبا کا قد ان کی عمر سے کم ہے کیونکہ یہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ وزیراعلیٰ صاحب ! عوام کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہا کہ اشرافیہ، اشرافیہ کیخلاف کیسے بول سکتی ہے،کیونکہ آپ کے لباس، رہائش، آپ کے دفاتر اور انکے اخراجات سے اشرافیہ کی چمک نظر آتی ہے۔ اس لئے اگر آپ واقعتا یہ سمجھتے ہیں کہ ’’90 فیصد پاکستانیوں کے پاس وسائل نہیں، ظلم و زیادتی کا نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا‘‘ تو پھر اس نظام کو ختم کرنے کے لئے خواص سے عوام تک کا سفر طے کریں۔ عوام کو عملی طور پر یقین دلائیں کہ آپ اُن میں سے ہیں، پھر دیکھئے گا کہ انقلاب ضرور آئے گا، حالات بدلیں گے، عوام کا رومانس آپ سے مزید بڑھے گا اور پھر زیور تعلیم سے پوری قوم بھی آراستہ ہو سکے گی۔

.
تازہ ترین