• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ مظہر عباس)تمام نظریں سپریم کورٹ لگی ہوئی ہیں کیونکہ ہر کوئی پاناما کیس کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے جو گزشتہ 8 مہینے سے سیاست پر چھایا ہوا ہے، نہ صرف اس میں شامل جماعتیں، وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ بلکہ مرکزی درخواست گزار جیسے عمران خان، شیخ رشید احمد اور سراج الحق کے لئے بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس مقدمے کا فیصلہ جس کے بھی حق میں آیا وہ کرپشن کے خلاف عالمی تحریک کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہوگا جس نے 2000کے اوائل میں رفتار پکڑی تھی۔ پاکستان میں کرپشن کے بارے میں جو اطلاعات آتی رہی ہیں ان کے پیش نظر یہ اس کی حیثیت بہت چھوٹے سے حصے کی ہے، کیونکہ بہت سے سیکٹرز ایسے ہیں جن کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوسکتی، پاناما کے معاملے کو بھی پاکستان میں اس وجہ سے اہمیت ملی کہ اس انتہائی کرپٹ ترین معاشرے میں وزیراعظم کی بیٹی اور بیٹوں کے نام بھی شامل تھے۔ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں کرپشن کو کہاں تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے یا اگر شریف خاندان بچ جاتا ہے تو درخواست گزاروں کو کہاں تک نقصان پہنچے گا، یہ بات اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کیا کرپشن کے خلاف جو مجموعی مائنڈ سیٹ ہے وہ تبدیل ہوگا یا ہم تمام سیکٹرز کا احتساب کرنے کے قابل ہوسکیں گے؟سپریم کورٹ جج اور پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خود اس وقت دو بہت اہم آبزرو یشنز کی ہیں جب بینچ نے سماعت ختم کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کی وجہ سے فیصلے کے متعلق پریشانی بڑھ گئی۔ کئی طرح سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ فیصلہ تاریخی ہوگا اور طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا اور یہ کہ یہ فیصلہ جذبات کی روشنی میں نہیں دیا جائے گا بلکہ قانون کے مطابق ہوگا۔ لارینس کوککرافٹ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے بانی ہیں اور اینی کرسٹائن ویگنر پولیٹیکل سائنٹسٹ اور انیٹی کرپشن کی تجزیہ کار ہیں۔ ان دونوں نے مشترکہ طور پر ایک کتاب ’’ان ماسکڈ‘‘ (UNMASKED) کے عنوان کے تحریر کی ہے، جس میں نہ صرف مغرب میں ہونے والی کرپشن کو بے نقاب کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح پاناما پیپرز نے سیکریسی جورسڈکشن کو بے نقاب کرنے کو نئی جہت دی ہے۔ ان کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’اثر و رسوخ کو خریدا جاتا ہے اور طاقت کو فروخت کیا جاتا ہے۔‘‘ 2012-13 میں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ، آئی سی آئی جے، دنیا کے متعدد آف شور مراکز میں موجود اکاؤنٹس میں ایک بے مثال تحقیق کی، آف شور مراکز کی بہتر تشریح سیکریسی جورسڈکشن کے طور پر کی جاسکتی ہے۔ کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس تحقیق میں پاکستان سمیت 46 ممالک کے 86 صحافی شامل تھے اور انہوں نے ایک لاکھ 30 ہزار افراد کے 25 لاکھ اکاؤنٹس کا جائزہ لیا،جس کے بعد دنیا کے پانچ سنجیدہ ترین اخبارات میں رپورٹس شائع ہوئیں۔ آئی سی آئی جے نے اپریل 2016 میں اس وقت مبینہ طور پر بدعنوان امیروں کو بے نقاب کیا جب اس نے پاناما کی قانونی فرم موساک فونسیکا سے بہت بڑی تعداد میں فائلیں حاصل کیں، جنہیں پاناما پیپرز کہا جاتا ہے، اس میں ساڑھے گیارہ ملین دستاویزات کا کھوج لگایا گیا۔ کتاب کے مطابق اس تحریک کا سب سے حیرت انگیز پہلو یہ تھا کہ کرپشن کا تعلق دہشت گردی، دہشت گردی کے لئے مالی امداد فراہم کرنے، منی لانڈرنگ سے تھا، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے پاکستان متاثر ہے اور لڑ بھی رہا ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی و غیر سیاسی شعبوں میں کھربوں کی کرپشن ہوتی ہے لیکن بدعنوانی پر مبنی اقدامات کے مقابلے میں اس کے خلاف تحریک کا ابھرنا اتنی پرانی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں اس کا آغاز سن 60 کے عشرے میں بیورکریسی کے حلقوں میں ہوا تھا جو مراعات کے نام پر خاص طور پر پلاٹس اور کیش کی صورت میں تھا۔ اس میں خفیہ فنڈز قائم کرنا بھی شامل تھا جو نہ صرف خفیہ اداروں میں بلکہ درجنوں شعبوں بشمول وزارتوں میں بھی ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے بدعنوانی کے فلڈگیٹس کھل گئے تھے۔ 70 کی دہائی کے وسط تک کرپشن قابو میں تھی اور اس نے سیاسی ماحول کو آلودہ نہیں کیا تھا۔ پاکستان میں کچھ انویسٹی گیٹو صحافیوں نے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ جیسے مسائل پر روشنی ڈالنی شروع کی اور سوویت یونین کے خلاف جہاد یا جنگ کے نام پر کروڑوں ڈالر کی آمد کے ساتھ ہی اس مسئلے نے عالمی سطح پر توجہ حاصل کرلی۔ عالمی میڈیا میں کچھ ریٹائرڈ جنرلوں کے نام بھی سامنے آئے لیکن اس کا نوٹس نہیں لیا گیا کیونکہ دنیا کی توجہ افغان جنگ کی جانب تھی۔ اس قوم کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا گیا وہ خفیہ فنڈز کے ذریعے سیاستدانوں کو خرید کر ایک کی یا دوسرے کی حکومت کو اقتدار سے باہر کرنے کا تھا۔ میڈیا بھی اس کا نشانہ بنا کیونکہ اس طرح کے فنڈز سے بہت بڑی رقم خرچ کی جارہی تھی۔ لیکن یہ پاکستانی صحافی تھے جو آخرکار عدالت تک گئے اور اگر کچھ نہیں ہوا تو وہ ان فنڈز اور ان سے فائدہ اٹھانے والوں کے بے نقاب کرنے میں ضرور کامیاب ہوئے۔ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ کروڑوں بلکہ اربوں روپے کم تر درجے کے افسران کے گھروں سے برآمد کیے جارہے ہیں۔ اگر اتنی رقم گریڈ 16 یا 18 کے افسران سے برآمد کی جارہی ہے تو اس سے اوپر کے گریڈز کے بارے میں تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ میرے ایک دوست کا، جو برطانیہ میں رہتا ہے اور بینکاری کے شعبے میں کام کرتا ہے، کہنا ہے کہ پاکستانیوں نے بیرون ملک جو رقم رکھی ہوئی ہے اگر وہ بے نقاب ہوجائے تو پاکستان ہل کر رہ جائے۔ اگرچہ بدعنوان حکمرانوں کے بے نقاب کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ اکثر صرف سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے خبروں کو استعمال یا فراہم کرتی ہے۔ 1989 میں پہلی مرتبہ خفیہ فنڈز سے رقم کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے اور اسے روکنے کے لئے استعمال کیا گیا اور مڈنائٹ جیکال کی خبر سرخیوں کی زینت بنی۔ اس کے بعد یہ 1990 میں ہوا، جس میں پہلی مرتبہ پہلی مرتبہ سرعام کرپشن ایک منظم جرم کے طور پر بے نقاب ہوئی اور یہ پہلا موقع تھا جب دنیا کو پتہ چلا کہ کس طرح بینکوں کو کرپشن کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک انتہائی ایماندار سیاستدان ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کا شکریہ کہ وہ ایک سادہ سا سوال لے کر سپریم کورٹ پہنچے کہ کیا آئی ایس آئی میں کوئی سیاسی سیل ہے۔ اس ایک سوال کے جواب میں دس سال لگ گئے اور نتیجے کے طور پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے حلف نامے کے ذریعے اعتراف کیا کہ کس طرح 90 ملین روپے آئی جے آئی کے رہنماؤں، کچھ صحافیوں اور ایڈیٹرز میں تقسیم کیے گئے تھے۔ آخرکار سپریم کورٹ نے مہران بینک کے مشہور کیس میں اپنا فیصلہ سنایا اور 1990 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ اسی طرح 2009 میں پنجاب میں گورنر راج کے دوران انٹیلی جنس بیورو کے خفیہ فنڈز سے مبینہ طور پر بھاری رقم استعمال کی گئی۔ پاکستان ایشیا کے انتہائی بدعنوان ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ بھارت پہلے نمبر پر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے ہم کچھ مطمئن ہوجائیں لیکن اگر ہم اب بھی چیک اینڈ بیلنس کے بے مثال طریقے کو روبہ عمل لانے میں ناکام رہے تو ہم بدعنوان اقوام میں سب سے اوپر ہوسکتے ہیں۔
تازہ ترین