• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی امریکی کو ملٹری اتاشی سے دستخط کروائے بغیر ویزہ ایشو نہیں کیا ِ،حسین حقانی

کراچی(ٹی وی رپورٹ)امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا کہ میر آرٹیکل پاکستان کے تناظر میں نہیں تھا ، پاکستان میں غلط تاثر پھیلایا جارہا ہے ،آرٹیکل اس تناظر میں لکھا گیا کہ دنیا بھر میں سفارتی نمائندے کس طرح کام کرتے ہیں ، اس آرٹیکل میں برسبیل تذکرہ اس بات کا ذکر کیا کہ2008ء میں جب اوباما صدارتی انتخابات لڑرہے تھے تو اس وقت میں نے اس معاملے کو کیسے ڈیل کیا ، یہ میں نے واقعاتی بات کی تھی جس میں نہ کوئی انکشاف تھا اور نہ کوئی اعتراف ، میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ ہم نے امریکیوں کو اسامہ بن لادن تک پہنچایا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیونیوز کے پروگرام ’جرگہ‘ میں میزبان سلیم صافی کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ پروگرام میں سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے بھی خصوصی گفتگو کی گئی۔حسین حقانی نے کہ کہ ایک پرانا تنازع  جو کہ ویزہ سے متعلق تھا اس کو چھیڑ دیا گیا ہے، اس معاملے کی اندرونی انکوائری بھی ہوچکی ہوگی ، کیونکہ اس بات کو پانچ یا چھ سال گزر چکے ہیں، میرے آرٹیکل کے کچھ الفاظ کی غلط تشریح کی گئی ،اسامہ بن لادن تک امریکی سہولت کاری کا کریڈٹ لینے کا تاثر دیا جارہا ہے ، میں نے اس آرٹیکل میں امریکیوں کو مخاطب کیا کہ امریکی اسامہ بن لادن تک اس لیے پہنچے کیونکہ ان کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ، پاکستانی عوام کو ویزوں کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ، اسامہ بن لادن ویزے سے پاکستان آیا نہ اسامہ کو ہلاک کرنے والے امریکی ویزوں سے پاکستان میں داخل ہوئے، چند سو سے چند ہزار تک امریکی پاکستان آئے مگر ان میں جاسوس کتنے تھے یہ علم نہیں، کتنے امریکی آئے یہ تو بتایا جاسکتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاسکتا کہ ان میں کتنے امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ تھے، میرے مضمون میں بات یہ تھی اس وقت پاکستان کو بہت بڑا امدادی پیکج مل رہا تھا ، اس امدادی پیکج کے حوالے سے امریکی پاکستان آئے اور ہماری حکومت نے بھی اس وقت امریکیوں کی پاکستان میں موجودگی پر تعاون کیا جن میں سے بعض امریکی سی آئی اے کے لوگ تھے جنہوں نے ایبٹ آباد آپریشن میں مدد کردی ، میں امریکیوں کو ویزہ دینے سے متعلق اتنا محتاط تھا کہ میں نے کسی امریکی کو ویزہ متعلقہ اداروں کے نمائندوں کی تصدیق کے بغیر جاری نہیں کیا تھا ، ملٹری اتاشی سے دستخط کروائے بغیر کوئی ویزہ ایشو نہیں کیا گیا ِ۔حنا ربانی کھر نے کہا کہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان میں کہاں سے بحث شروع ہوتی ہے اور کہاں پہنچ جاتی ہے اور کس کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے اور کون ذمہ دار ہوتے ہیں ، میرے دور وزارت میں امریکی آپریشنل فورسز کو کسی قسم کی کوئی خصوصی رعایت نہیں دی گئی ، جس دور میں ، میں وزیر خارجہ تھی اس دور میں نیٹو کی سپلائی روکی گئی ، ہم نے شمسی ائیربیس امریکیوں سے خالی کروایا جبکہ اب پیپلزپارٹی پر سی آئی اے کی سہولت کاری کا الزام لگایا جارہا ہے۔ حسین حقانی نے مزید کہا کہ جس وقت میں امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا اس وقت امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کا پیکج دیا جارہا تھا ، امدادی پیکج پر عملدرآمد کیلئے امریکیوں کو پاکستان آنے کی ضرورت تھی اور پاکستانی حکومت کو ان کے ساتھ تعاون کرنا تھا ، اگر ہمارے تعاون کرنے کے باوجود بھی انہوں نے ہم پر اعتما دنہیں کیا تو ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے ، امریکیوں کی جانب سے ہمیں اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا ، پاکستان میں اگر کوئی بھی غیر ملکی آتا ہے تو ائیرپورٹ سے آتا ہے ، اس کے پیچھے ائیرپورٹ سے لوگ لگائے جاسکتے ہیں ، پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنا پانچ سالہ جمہوری سفر کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے ، اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات بہتر نہ ہوں اور حکومت کی معیاد مکمل ہوجائے ، عسکری ناکامی کو سیاسی ناکامی ثابت کرنے کی کوشش ہورہی ہے ، پاکستان میں ہمیشہ کسی کو بھی قربانی کا بکرا بناکر اور اس کے اوپر بحث چھیڑ کر معاملے کو ادھر ادھر کر دیا جاتا ہے ، کم از کم متناسب طریقے سے بات کرنی چاہئے ۔ سابق صدر آصف ز رد ار ی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر انہیں آصف زرداری کے ساتھ بے وفائی کرنی ہوتی تو میمو گیٹ اسکینڈل کے زمانے میں جھوٹ بول کر بھی بے وفائی کرسکتا تھا ، جو کہانی میرے بارے میں بنا دی گئی ہے اس کے کئی اسباب ہیں ، جتنا میرے بارے میں میڈیا میں ذکر کیا جاتا ہے وہ میرے قد کاٹھ کے حوالے سے غیر متناسب ہے ، میں بہت چھوٹا آدمی ہوں ، بے نظیر بھٹو کی کردار کشی میں نے نہیں ان لوگوں نے کی جنہوں نے آئی جے آئی بنائی تھی اور آئی جے آئی بنانے والے نادیدہ ہاتھ تھے ، بینظیر بھٹو خود اس بات کی تردید کرچکی ہیں کہ ان کی کردار کشی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ، میں جب امریکہ آیا تو میں نے پاکستان سے متعلق ایک نیا بیانیہ تیار کرنا شروع کیا کہ پاکستان میں پاکستان کی تاریخ کو جس طرح سمجھا جاتا ہے وہ غلط ہے ، یہ سمجھا جائے کہ 1947ء میں پاکستان کے حصے میں کیا آیا تھا ، پاکستان کو برصغیر کے وسائل میں فوج زیادہ ملی اور دیگر وسائل کم ملے ، آج تک میری کتابوں میں سے کسی ایک کتاب کا کسی نے جواب نہیں لکھا ۔ انہوں نے کہا کہ جان بوجھ کر کسی پاکستانی نے اداروں کو بائی پاس کرکے امریکیوں کو سہولت کاری فراہم نہیں کی ،میں آخری بات اہل وطن کو کہنا چاہتا ہوں کہ دلیل کا جواب دلیل سے اور ذاتی بحث کے بجائے میرے بیانیے پر غور کیا جائے ، کتنے ہی لوگوں نے بیان دیا ہے کہ حسن حقانی بہت غیر اہم آدمی ہے تو اتنے غیر اہم آدمی پر ٹی وی اتنے سارے پروگرام اور اخباروں کے اتنے کالمز ضائع کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔ حنا ربانی کھر نے مزید کہا کہ امریکیوں کو خصوصی مراعات پی پی کے دور میں نہیں نائن الیون کے بعد دی گئیں ۔ان تمام سوالات کا ملبہ حسین حقانی کے ایک آرٹیکل پر اٹھایا جارہاہے ،اس ایشو کو لوگ پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث قرار دے رہے ہیں لیکن ہمارے اپنے ملک پاکستان سے اسامہ بن لادن نکلا ، کیا اس سے بھی زیادہ شرمندگی کی بات ہوسکتی ہے ، میں اُس وقت وزیر خارجہ تھی ، ہم اُس وقت بالکل ہکا بکا تھے اور ہمیں اس پر جواب دینا بھی نہیں آرہا تھا، کوئی سول حکومت ملٹری اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیرکسی غیر ملکی کو سہولت کاری فراہم نہیں کرسکتی ، یہ بالکل ناممکن بات ہے ، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سے متعلق سیکورٹی اسٹبلشمنٹ کو تشویش تھی اس لیے یہ رپورٹ پی پی حکومت کے دور میں سامنے نہیں آئی ، میں خود ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے پیش ہوئی ہوں اور اس رپورٹ کی تیاری میں خاصا وقت صرف کیا گیا ہے ، ہمیں بہت سارے سوالات کے جوابات چاہئے کہ کس طرح امریکی ہیلی کاپٹر پاکستانی سرزمین پر آپریشن کرکے چلے گئے اور ہمیں پتا ہی نہیں چلا ، امریکیوں کی پاکستان آمد اگر باعث شرمندگی ہے تو اسامہ بن لادن کی موجودگی زیادہ باعث شرمندگی تھی ، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعتر اضا ت کے باعث پبلک نہیں کی جاسکی ، ان سوالوں کا جواب ضروری ہے کہ امریکی ہیلی کاپٹر پاکستان میں داخل ہوگئے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلا ، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو منظر عام کو لایا جائے تاکہ تمام کرداروں کا تعین ہوسکے ۔ قبل ازیں سلیم صافی نے اپنے تجریے میں کہا کہ روزنامہ جنگ 14اگست 2010کو اخبار کے صفحہ اول پر ایک خبر شائع ہوئی ، اس خبر کی ہیڈ لائنز تھیں کہ قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زرداری ہاؤس دبئی کی سفارش پر پاکستانی قونصلیٹ سے 150بھارتیوں اور 86 امریکیوں کو ویزے دیے گئے لیکن اس خبر کا نوٹس نہیں لیا گیا ، اس کے کچھ دن بعد میں نے اس موضوع پر ایک کالم بھی لکھا، اس وقت اس خبر کا نوٹس نہیں لیاگیا تھا لیکن اب امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک آرٹیکل لکھاجس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر امریکیوں کے ساتھ تعاون کیا ، اس تعاون کے نتیجے میں امریکی اسامہ بن لادن کے قریب پہنچے ، ان کے اس آرٹیکل کے بعد میڈیا میں طرح طرح کی بولیاں بولی جارہی ہیں ، اس دور میں شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ تھے ، ان سے باربار رابطہ کیاگیا اور یہ سوال کیا گیا کہ ان کے دور میں امریکیوں کو اس طرح کی خصوصی آزادی کیوں دی گئی لیکن شاہ محمود قریشی ہم سے بات کرنے کا وقت نہیں نکال سکے۔
تازہ ترین