• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر یہ بات دہرائی ہے کہ پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ حل طلب مسائل پرامن بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس حوالے سے اتوار کو تاتارستان کے صدر رستم منیخا نوف سے ملاقات کے دوران انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم روس تاتارستان اور ان کے مسلم علاقوں کے ساتھ جن سے ہماری دیرینہ شراکت داری ہے، باہمی تعاون بڑھانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔ روس کے ساتھ امریکہ کی طرف ضرورت سے زیادہ جھکائو کے باعث سالہا سال تک پاکستان کے تعلقات مسائل کا شکار رہے۔ اس کی وجہ سے سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں کے ساتھ بھی یک گونہ بیگانگی قائم ہو گئی لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پہلے وسط ایشیا کے ملکوں اور اس کے بعد روس کے ساتھ بھی تعلقات بہتر ہو گئے یہ پاکستان کی امن پسندی کا ثبوت ہے۔ خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور چین کے ساتھ دوستی کی مثال تو کہیں مشکل ہی سے ملے گی لیکن بدقسمتی سے بھارت واحد ملک ہے جس کی جموں و کشمیر کے مسئلے پر ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی واضح قرار دادوں سے انحراف کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں شروع ہی سے بگاڑ پیدا ہو گیا جو تین بڑی جنگوں اور کئی چھوٹے معرکوں کا سبب بنا۔اس وقت بھی نہ صرف کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پرجنگ جیسی صورت حال ہے بلکہ آبی تنازع کے علاوہ کئی دوسرے معاملات بھی شدید کشیدگی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کی مودی حکومت نے اعلانیہ پاکستان کو تنہا کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس میں اسے کسی دوسرے ملک کی حمایت تو نہ مل سکی البتہ کابل حکومت نے اس کی شہ پر پاکستان کے ساتھ بلاجواز تصادم کی راہ اختیار کی جس کے نتیجے میں ان دو برادر اسلامی ملکوں میں جو ایک دوسرے ساتھ تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور جذباتی رشتوں میں منسلک ہیں، فی الوقت تعاون اور اعتماد کی فضا کونقصان پہنچا ہے۔ تاہم پیر سے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاک بھارت آبی مذاکرات کی بحالی اور لندن میں برطانیہ کی مدد سے پاک افغان بات چیت ان ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی جانب مثبت پیش رفت ہے۔ اسلام آباد میں سندھ طاس کمیشن کا اجلاس مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آبی ڈیموں کی تعمیر پر پاکستان کے اعتراضات رفع کرنے کے لئے بلایا گیا ہے جس میں بھارتی وفد بھی اپنے تحفظات پیش کرے گا بھارت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے نہ صرف ڈیمز تعمیر کر رہا ہے بلکہ بارش کے دنوں میں بلا اطلاع پاکستان کی جانب سیلابی ریلا چھوڑ دیتا ہے جس سے فصلوں اور آبادیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کا پانی بھارتی پنجاب کو منتقل کر کے پاکستان کو بنجر بنا دیں گے۔ یہ اور اس نوعیت کے کئی دوسرے مسائل پربھی دونوں ملکوں میں بات چیت ہو گی اور اگر بھارت نے مثبت رویہ اختیار کیا تو اس سے جامع مذاکرات کا دروازہ بھی کھل سکتا ہے جو کشمیر کے بنیادی تنازع کے حل کی جانب بہت بڑا قدم ہو گا۔ ادھر لندن میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز اورافغان مشیرقومی سلامتی حنیف اتمر میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی مثبت اشارے ملے ہیں افغان مشیر نے روسی خبر ایجنسی کو بتایا ہے کہ لندن مذاکرات نتیجہ خیز رہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا ہے اور باہمی تعاون بڑھانے اور کشیدگی ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اگرچہ بعض دوسرے مسائل بھی حل طلب ہیں تاہم توقع ہے کہ باہمی اعتماد بحال ہونے سے کشیدگی کے موجودہ ماحول میں بہتری پیدا ہو گی۔ بھارت کو چاہئے کہ وہ خطے میں پائیدار امن کے لئے نہ صرف خود پیش قدمی کرے بلکہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائی کی غرض سے پاکستان سے تعاون کے لئے افغانستان کی بھی حوصلہ افزائی کرے۔

.
تازہ ترین