• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013ء کے قومی و صوبائی انتخابات کے نتائج کے بعد مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کے مینڈیٹ کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان حکومتوں کے خلاف کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ سے مکمل طور پر اجتناب کیا۔ کسی بھی جمہوری ملک میں مرکز اور صوبوں کی حکومتوں کا مختلف پارٹیوں کے پاس جانا جمہوری اصول کے عین مطابق ہے اس سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک قابل اعتماد نظام قائم ہو جاتا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کا ایک دوسرے پر تنقید کا حق مسلم مگر اس اختلاف رائے کو سیاسی چپقلش کا رنگ نہیں اختیار کرنا چاہئے۔ وفاق کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ اس بات سے قطع نظر کہ کس صوبے میں کس جماعت کی حکومت ہے، سب کے لئے ایک معیار اور یکساں پیمانہ اختیار کئے ہوئے ہے اور مرکز اپنی مخالف جماعتوں کی صوبائی حکومتوں کے لئے ہرگز کوئی امتیازی پالیسی اختیار نہیں کرتا۔ لیکن سندھ کی جانب سے آواز اٹھی ہے کہ پنجاب اور سندھ کے لئے احتساب کے الگ الگ پیمانے کیوں؟ وفاقی اداروں کا رویہ نہ بدلا تو ان کا بستر بوریا گول کر دیں گے احتساب کے پیمانے الگ الگ ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو کسی مناسب فورم پر ہی ہوسکتا ہے۔ قومی و صوبائی انتخابات سر پر کھڑے ہیں سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہر طرح کی باتیں کرتی ہیں۔ انہیں اپنے موقف پر بات کرنے کی پوری آزادی ہے مگر یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وفاق اور صوبوں کے اتحاد و اتفاق کے لئے کسی بھی طرح کی لفظی و سیاسی جنگ جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی وفاق کے استحکام کی علمبردار ہی ہے اور اس نے کئی بار چاروں صوبوں میں حکومت کی ہے۔پی ٹی آئی پہلی بار خیبرپختونخوا میں برسراقتدار آئی ہے مگر وہ بھی وفاق اور صوبوں میں اتحاد و اتفاق کی علمبردار اور وفاق سے محاذ آرائی کے خلاف ہے۔ انہیں اپنا یہ ایجنڈا برقرار رکھنا چاہئے اور اگر کوئی شکایات ہیں تو وفاق سے بات چیت کے ذریعے ان کا حل نکالنا چاہئے۔ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے۔

.
تازہ ترین