• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نوجوان عرفان جٹ کی دعو ت پر 2007ء میں تحریک انصاف کے تعارفی اور تنظیمی امور کیلئے بہت سے دیہات میں جانا ہوا‘ ان دیہات میں زیادہ تر جاٹ برادری آباد ہے۔ ہر دیہات کے لوگوں کو امن و امان کے حوالے سے بہت شکایت تھی‘ چوری اور ڈاکے سرشام شروع ہو جاتے‘ معمولی مزاحمت پر لوگوں کو قتل کر دیا جاتا‘ دس برس گزرنے اور تین حکومتیں بدل جانے کے بعد بھی صورتحال میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی‘ شہروں میں صورتحال اور بھی خراب ہے‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آرائیں اور جاٹ برادری کی اکثریت ہے‘ یہ لوگ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان آئے‘ ہجرت دو مرحلوں میں ہوئی‘ پہلی ہجرت انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی‘ جب ساندل بار میں نہریں بنائی گئیں اور کھیتی باڑی کا آغاز ہوا تو مشرقی پنجاب سے کسانوں اور زمینداروں کو لا کر یہاں آباد کیا گیا‘ انہیں مفت یا معمولی قیمت پر زمینیں الاٹ کی گئیں تھیں‘ 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہندوستان سے پاکستان کی طرف وسیع پیمانے پر ہجرت ہوئی۔ مشرقی پنجاب سے آنے والے اکثر خاندان فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی طرف آئے‘ اس لئے کہ یہاں ان کے عزیز رشتہ دار پہلے سے موجود تھے چنانچہ ان کیلئے ابتدائی قیام و طعام کا مسئلہ آسانی سے حل ہو سکتا تھا۔ امن و امان کی صورتحال جس قدر خراب دس سال پہلے تھی آج بھی ہے‘ پنجاب میں جرائم کی شرح کسی طرح بھی سندھ سے کم نہیں ہے۔ ایک دن عرفان شہر کی دوسری طرف لے گیا‘ یہ دو گائوں آرائیں برادری کے تھے‘ جو جالندھر سے ہجرت کر کے آئے اور دونوں کا درمیانی فاصلہ دو تین کلومیٹر رہا ہو گا۔ ان دیہات کے لوگوں سے امن و امان کی بات ہوئی تو ان کاجواب بڑا حیران کن تھا‘ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں گزشتہ پچاس سالوں میں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ کبھی چوری ہوئی نہ ڈاکہ‘ یہ حیران کن بلکہ ناممکن سا لگتا ہے‘ ان سے پوچھا کہ پورے ضلع میں‘ ڈاکے‘ چوری اور اس دوران مزاحمت پر قتل کی وارداتوں سے ہاہا کار مچی ہے‘ آپ کہتے ہیں ہمار ے ہاں‘ ایسا کوئی مسئلہ نہیں‘ مگر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے‘ کہا‘ شروع میں ہمار ے ہاں چوری کی واردات ہوئی تو پورے گائوں نے چوروں کا پیچھا کیا اور آخرکار مجرموں کو جالیا‘ ہمارے گائوں کا یہ اتحاد ہی تھا جس کی وجہ سے پھر کبھی کسی چور یا ڈاکو کو اس طرف آنے کی ہمت نہیں ہوئی‘ پوچھا‘ دیہات میں تو بہت جھگڑے اور تنازعات ہوتے ہیں‘ آپ کے ہاں ایسا اتحاد کیونکر ممکن ہوا؟ کہنے لگے جب سے ہم اس گائوں میں آباد ہوئے تو چھوٹا سا گائوں تھا‘ اب یہ کافی پھیل گیا ہے‘ آبادی بھی کئی گنا ہو گئی اس کے باوجود ہم نے اپنے گائوں میں دوسری مسجد نہیں بننے دی‘ ہم ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ہر روز ایک دوسرے سے میل ملاقات ہوتی اور ایک دوسرے کے معاملات سے آگاہ رہتے ہیں‘ پوچھا‘ کیا آپ کے ہاں کوئی اختلاف نہیں؟ بولے کچھ نہ کچھ اختلاف تو ہوتا ہی ہے‘ بعض کے درمیان زمین جائیداد کے کچھ تنازعات بھی عدالتوں میں زیرسماعت ہیں لیکن ایک مسجد کی برکت سے یہ تنازعات دشمنی میں نہیں بدل پائے‘ دونوں فریق‘ تھانہ کچہری میں ایک تانگے پر جایا کرتے تھے‘ اب بھی ایک ہی سواری پر سوار ہو کر چلے جاتے ہیں‘ روز کی ملاقات‘ اکٹھے نماز ادا کرنے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے مسائل اجنبیت اور دشمنی میں نہیں بدلے‘ اس لئے سماج دشمن لوگوں کو ہمارے گائوں میں کوئی مخبر یا ہمدرد نہیں ملا جس کی وجہ سے نصف صدی بعد بھی ہماری زندگی آرام سے بسر ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک پُرسکون دیہات میں جس کی کل آبادی آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے قریبی عزیزوں کی تھی‘ گائوں کے سکھ چین کو کسی حاسد کی نظر کھا گئی یا ان میں کوئی شیطان گھس آیا۔ چوک میں کھیلتے چھوٹے بچوں کی لڑائی میں‘ ایک بچے کے جواں سال بھائی اکرم نے دوسرے بچے کو تھپڑ دے مارا‘ زور دار تھپڑ سے معصوم بچے کا ہونٹ پھٹ گیا اور خون بہہ نکلا‘ بچہ روتا ہوا گھر گیا تو اس کے چچا ریاض جو کافی زود رنج اور غصیل واقع ہوئے تھے‘ اس نے اپنا ریوالور اٹھایا‘ چوک میں کھڑے اکرم پر تڑتڑ گولیاں چلا دیں‘ جو اس کے سینے میں لگیں اور اکرم کوئی آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا‘ ریاض کو گرفتار کر لیا گیا‘ قتل بیچ بازار میں ہوا تھا‘ درجنوں لوگ چشم دید گواہ تھے‘ آلہ قتل برآمد ہو چکا تھا‘ گائوں بھر کی ہمدردیاں مقتول کے ساتھ تھیں‘ سارا گائوں اس لئے بھی قاتل کے خلاف تھا کہ اس نے پُرسکون گائوں میں خون کی لکیر سے ساٹھ ستر سال کے امن کو ایک آن میں روند ڈالا تھا۔ مقدمے نے طول کھینچا تو آہستہ آہستہ مقتول کے ساتھ ہمدردی کی لہر میں پہلی سی شدت نہ رہی‘ جیل میں ریاض کے بعض جرائم پیشہ قیدیوں سے تعلقات بنے اور انہوں نے جیل سے باہر بعض مفرور ملزموں کے ذریعے گواہوں کو ڈرا دھمکا کے گواہی سے باز رکھا‘ جو گواہی کیلئے آئے وہ بھی اپنے بیان سے منحرف ہو گئے‘ چنانچہ ناکافی شہادتوں اور متضاد بیانات کی وجہ سے سیشن جج کی عدالت نے ملزم کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا۔ لاش چوک میں گری ہے‘ درجنوں عینی شاہد ہیں‘ پورا گائوں اصل واقعات جانتا ہے لیکن قانون کی مجبوری اور انصاف میں تاخیر نے سب کچھ بدل ڈالا۔ اس مقدمے کا فیصلہ کرنے والے سیشن جج اسی گائوں کے داماد تھے‘ سارے حقائق ان کے علم میں تھے‘ ان کی دیانت داری اور بے خوفی ضرب المثل تھی لیکن گواہوں کے لالچ یا خوف نے قانون کو عدل تک جانے کا راستہ بند کر دیا‘ جج کا ذاتی علم بھی قانون کی رکاوٹ عبور نہیں کر سکا۔ یوں ریاض عدالت سے بری ہو کر گائوں آ گیا‘ ریاض کو گائوں میں دندناتا دیکھ کر‘ مقتول اکرم کے بڑے بھائی نے ریاض کو ہلاک کر دیا اور خود مفرور ہو گیا۔ مفرور کے خوف سے سارے گائوں کا سکون غارت ہے‘ مفرور صلح پر بھی آمادہ نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ان سب لوگوں سے انتقام لے گا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی‘ قاتل کو بری کروایا اور مجھے قتل کی راہ دکھائی‘ جس کی وجہ سے میں آج دربدر ہوں۔
یہ واقعہ ’’پانامہ لیکس‘‘ کے بارے سوال کرنے والے حاجی محمد اسلم کو سنایا جو خود بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ پوچھ رہے تھے کہ فیصلہ عمران خان کے خلاف آیا تو وہ کیا کریں گے؟ عرض کیا‘ وہی جو اکرم کے بھائی نے کیا‘ اور اگر وہ جمہوریت کا راستہ اور عدالت کا در چھوڑ کر انقلاب کی شاہراہ پر نکل پڑا تو حکومت ہی نہیں ریاست کے اداروں کو بھی بڑی آزمائش سے گزرنا پڑے گا۔

.
تازہ ترین