• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے پریشان دیکھ کر بھگوان نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟‘‘
میں نے بھگوان سے کہا ’’تم تو دلوں کے حال خوب اچھی طرح سے جانتے ہو۔ پھر مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟‘‘
بھگوان نے کہا ’’میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں‘‘
میں نے کہا۔ ’’میں سوچنا چاہتا ہوں۔ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں پیا ملن کے گیت گانا چاہتا ہوں۔ کوئی ساز بجانا چاہتا ہوں۔ چتر کاری کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ تخلیقی کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
بھگوان نے پوچھا۔ ’’پھر کرتے کیوں نہیں ہو؟ کس نے روکا ہے تمہیں؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’میں دو لڑاکو ہمسائیوں کے درمیان پھنس گیا ہوں۔ دونوں پڑوسیوں کی لگاتار چخ چخ سے بیزار ہوگیا ہوں۔‘‘
بھگوان نے کہا۔ ’’میں تمہیں فوراً کسی ایسے ملک بھیج دیتا ہوں جہاں پڑوسی ممالک چاند کے چکر میں پڑے ہوئے نہیں ہوتے۔ وہ چاند دیکھ کر اپنے تہواروں کے فیصلے نہیں کرتے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ میں یہاں سے کہیں جانا نہیں چاہتا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’میری تاریخ، میرا جغرافیہ، میری یادیں دونوں ہمسایوں کے درمیان بٹی ہوئی ہیں۔ میں گھٹ گھٹ کر مرجائوں گا۔ مگر دوسرے کسی ملک نہیں جائوں گا۔‘‘
’’تو پھر حالات سے سمجھوتا کرلو۔‘‘ بھگوان نے کہا۔ ’’لکھنے، پڑھنے، تخلیق کرنے کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔‘‘
میں نے پلٹ کر بھگوان کی طرف دیکھا۔ وہ اطمینان سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میرے دوستوں اور دشمنوں کا کہنا ہے کہ میں سچ مچ کے بھگوان سے باتیں نہیں کرتا۔ میں اپنے سر گواسی دوست ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما سے باتیں کرتا رہتا ہوں یہ درست ہے کہ ڈاکٹر بھگوان داس کے مرنے کا مجھے بہت دکھ ہے۔ وہ میری وجہ سے مارا گیا تھا۔ یہ ایک الگ قصہ ہے۔ پھر کبھی آپ کو سنائوں گا۔ فی الحال میں آپ کو صرف اتنا بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں جس بھگوان سے باتیں کرتا ہوں وہ میرے سرگواسی دوست ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما نہیں ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جب کوئی ہندو مرتا ہے تب ہم اسے سرگواسی کہتے ہیں۔ اور جب کوئی مسلمان مرتا ہے تب ہم اسے مرحوم کہتے ہیں۔ مرنے کے بعد ایک ہندو مرحوم نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مرنے کے بعد مسلمان سرگواسی نہیں ہوتا۔ انگریزی زبان میں سرگواسی اور مرحوم کے لئے ایک ہی لفظ ہے۔  Lateمرنے والا انگریز چاہے ہندو ہو یا مسلمان ہو اس کے نام کے ساتھ لفظ Lateلکھا جائے گا۔ جیسے Late Dr. BhagwandasیاپھرLate Dr. Abdul Kari Karim اسی طرح جب ہندو مرتا ہے تب اس کے وجود سے آتما نکل جاتی ہے یا پرواز کرجاتی ہے۔ مسلمان مرجائے تو اس کے وجود سے روح پرواز کرجاتی ہے یا نکل جاتی ہے۔ مرنے والا انگریز ہندو ہوچاہے مسلمان ہو، اس کے وجود سے Soul پرواز کرجاتی ہے۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جس سے میں باتیں کرتا رہتا ہوں وہ سرگواسی ڈاکٹر بھگوان داس کی آتما نہیں ہے۔ وہ بھگوان ہے۔ وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے، یا میں بھگوان کے ساتھ ہوں۔ میں جب چھوٹا تھا تب بھگوان بھی چھوٹا ہوتا تھا۔ میرے ساتھ گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلتا تھا۔ پھر جب میں بڑا ہوا تھا تب بھگوان بھی بڑا ہواتھا۔ وہ میرے ساتھ کرکٹ کھیلتا تھا۔ اب جب کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں، بھگوان بھی مجھے بوڑھا دکھائی دیتا ہے۔ مجھے مجذوب یا کھسکا ہوا ثابت کرنے کے لئے میرے دوست اور دشمن پوچھتے ہیں کہ بھگوان صرف تجھے کیوں دکھائی دیتا ہے۔ ہم لوگوں کو دکھائی کیوں نہیں دیتا۔ میں نے ایک مرتبہ بھگوان سے پوچھا تھا۔ ’’تم صرف مجھے کیوں دکھائی دیتے ہو؟ دوسروں کو دکھائی کیوں نہیں  دیتے؟‘‘
بھگوان نے کہا تھا۔ ’’میں صرف اس کو دکھائی دیتا ہوں جو مجھے دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
مجھے بھگوان دکھائی دیتا ہے۔ میں اس سے باتیں کرتا ہوں۔ کبھی کبھی بھگوان سے الجھ پڑتا ہوں۔ بھگوان کو قطعی اس بات کی پروا نہیں ہے کہ میں اس کی پوجا نہیں کرتا۔ بھگوان کو مجھ سے سب بڑی شکایت یہ ہے کہ میں اس سے کچھ مانگتا نہیں۔ تو مجھ سے کچھ کیوں نہیں مانگتا؟ چخ چخ کرتے ہوئے لڑاکو ہمسائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے اچانک بھگوان کی بات یاد آئی: ساری دنیا مجھ سے مانگتی ہے۔ تو مجھ سے کچھ کیوں  نہیں مانگتا؟
میں نے بھگوان سے کہا۔’’آج میں تم سے کچھ مانگنا چاہتا ہوں۔‘‘
بھگوان نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ایسی بات سننے کے بعد تم لوگ میرا شکریہ ادا کرتے ہو۔ میں بھگوان ہوں۔ میں کس کا شکریہ ادا کروں؟ بول۔ تو کیا چاہتا ہے؟‘‘
میں نے جھٹ سے کہا ’’تو لڑاکا ہمسائیوں کے دل میں پیار اور محبت کا بیج بودے۔
تاکہ ان کی روز روز کی چخ چخ ختم ہوجائے اور میں چتر کاری کرسکوں، پیا ملن کے گیت لکھ سکوں۔ گیت گا سکوں۔‘‘
بھگوان نے کہا۔ ’’میں خود مختار ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ تو مجھ سے کچھ اور مانگ۔‘‘
’’یہ کہو کہ تم مجھے کچھ نہیں دے سکتے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ایک مرتبہ خدا سے میں نے بھی ایک چیز مانگی تھی جو نہ مل سکی ۔‘‘
بھگوان نے پوچھا۔ ’’تم نے خدا سے کیا مانگا تھا۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’میں نے خداسے اس کی خدائی مانگی تھی‘‘۔تب میں نے دیکھا کہ میری بات سن کر بھگوان غائب ہوگیا تھا۔

.
تازہ ترین