• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج پاکستان کا ہر تعلیمی ادارہ اور خصوصاً وہ تعلیمی ادارے جن کی حالت بہت خستہ ہو چکی ہے، وہ اپنےاولڈ طلبہ سے اپنا دیا ہوا قرض مانگ رہے ہیں، خصوصاً ان طلبہ سے جو کسی اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے ہیں اور مالی طور پر بہت مضبوط حیثیت کے مالک بن چکے ہیں۔ پاکستان کے وہ تاریخی اور قدیم تعلیمی ادارے جنہوں نے بڑے مایہ ناز اور لائق اسٹوڈنٹس پیدا کیے۔ آج ان کی مادرِ علمی ان سے اپنا حق مانگ رہی ہے کتنے وہ اولڈ اسٹوڈنٹس ہیں جو آج اپنی مادر علمی کا یہ حق ادا کر رہے ہیں۔ یہ خیال ہمیں کچھ یوں آیا کہ ایک طالب علم جس کے والد نے گورنمنٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور میں پچیس برس تک پڑھایا اور اس طالب علم نے بھی اس تعلیمی ادارے سے ایف ایس سی کی۔ پھر علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایک ایسے استاد کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے روحانی باپ کے ناتے اس طالب علم کی ایسی تربیت کی کہ اس طالب علم کے اندر جو وطن اور اپنی مادر علمی سے محبت اور لگائو تھا اس میں جلا آ گئی، اب اس طالب علم کے اندر اپنی مادر علمی کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ بڑھتا چلا گیا اور وہ جب بھی اپنی مادر علمی کے باہر سے گزرتا تو اس کا دل کرتا کچھ نہ کچھ ضرور کروں۔ آخر ایک دن وہ اس مادر علمی کے پرنسپل ڈاکٹر اعزاز کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ میرے والد نے باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھایا ہے اور اس عمارت کی حالت بڑی خستہ ہے، اس کے لئے اس طالب علم نے پرنسپل کو 30لاکھ کا چیک دیا اور جانے لگے، تو پرنسپل نے اس طالب علم سے کہا کہ ہم نقد کوئی رقم یا چیک نہیں لے سکتے، آپ نے اگر اس کالج کے لئے کچھ کرنا ہے تو ایک کمیٹی بنا دیتے ہیں اور اس میں اپنے کسی رشتہ دار کو شامل کریں اور پھر وہ اس ڈیپارٹمنٹ کی مرمت وغیرہ یا جو کچھ کرنا ہے کریں۔ یہ طالب علم ڈاکٹر مبشر طفیل چوہدری ہیں اور جس استاد نے ان کی تربیت کی وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے آخری پرنسپل اور پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز حسن (ستارہ ٔامتیاز) ہیں۔ اس فرمانبردار ڈاکٹر نے اپنے والد طفیل چوہدری کے نام پر اس بلاک کا نام رکھا اور تعمیراتی کام شروع کر دیا۔
ڈاکٹر مبشر طفیل چوہدری ایک مدت سے امریکہ میں ہیں اور جب بھی وطن آتے ہیں تو وہ ملک کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں بلکہ امریکہ میں بھی وہاں کے امریکیوں کے علاج و معالجے میں مدد کرتے ہیں۔ ان کی سرجری تک ان کی این جی او فری کرواتی ہے اب وہ اس پورے کالج کو لے کر دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنانے کے خواہاں ہیں۔ خدا کرے ان کا یہ خواب پورا ہو۔ اس تعمیراتی کام کے لئے تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ اس باٹنی ڈیپارٹمنٹ میں ہر جدید سہولت کے ساتھ ساتھ اس کا امریکہ کی جدید یونیورسٹیوں کے ساتھ رابطہ ہو گا۔ یہاں کے طالب علم وہاں کی یونیورسٹیوں کے نصاب اور جدید لیکچرز کے ذریعے اپنے علم کو اپ ٹو ڈیٹ کریں گے، اس سارے منصوبے پر دو کروڑ روپے کے قریب رقم خرچ ہو رہی ہے۔ اس منصوبے کا افتتاح ڈاکٹر مبشر طفیل نے اپنی والدہ مسز طفیل اور استاد پروفیسر ممتاز حسن کے ہاتھوں کروایا آج بھی اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے ماں اور باپ کو عزت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کالج نے مجھے میڈیکل کالج تک پہنچایا اور علامہ اقبال میڈیکل کالج نے مجھے امریکہ پہنچایا، جہاں پر کئی امریکی ان کے ملازم ہیں۔ وہ علامہ اقبال میڈیکل کالج میں اسٹیم سیل تھراپی کا ڈیپارٹمنٹ بھی اپنے خرچ پر قائم کر رہے ہیں، جہاں پر امریکی ڈاکٹرز پڑھائیں گے، علاج کریں گے اور اسٹوڈنٹس کو میڈیکل کی جدید تعلیم اور ریسرچ کے بارے میں آگاہی دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں مادر علمی نے مجھے امریکہ میں مقام اور عزت دلائی اب میرا فرض ہے کہ ان دونوں مادر علمی کی ترقی اور بہتری کے لئے اپنا قرض اتاروں۔ مجھ اسی طرح چند برس قبل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے اولڈ اسٹوڈنٹس کی تنظیم (Kem Kana) ہے، جو نارتھ امریکہ میں سرگرم ہے اس کی ایک سابق صدر جو یہاں کی فارغ التحصیل تھیں۔ ڈاکٹر عائشہ نجیب کے ای ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے پاس آئیں اور کہا کہ آپ بتائیں کہ ہم اس کالج (اب یونیورسٹی) کے لئے کتنے پیسے دیں، تو پروفیسر فیصل مسعود نے بڑا تاریخی جملہ کہا کہ ڈاکٹر عائشہ ہمیں آپ کے پیسے کی نہیں بلکہ آپ کے نالج کی ضرورت ہے۔ آپ اپنا بہترین نالج یہاں کے اسٹوڈنٹس کو دیں۔ یہی ہمارے لئے سب سے بڑا پیسہ ہے چنانچہ اسی ادارے کے ایک دو اور اسٹوڈنٹس ڈاکٹر ریحان قیوم اسکائپ پر ڈاکٹروں کو جدید نالج دیتے رہتے ہیں۔
عزیز قارئین امریکہ میں 25ہزار پاکستانی ڈاکٹرز کام کرتے ہیں جو پاکستان کے مختلف میڈیکل کالجوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آج امریکہ میں نام، شہرت اور پیسہ کما رہے ہیں، صرف اور صرف اپنی قابلیت کی بنا پر۔ ان کے لئے چند لاکھ صرف چند روپوں کے برابر ہیں۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بعض ڈاکٹر اتنا ہی کما رہے ہیں جو امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر کما رہے ہیں مگر ان کے اندر حوصلہ نہیں، جذبہ نہیں کہ وہ اپنی مادر علمی کا قرض اتار سکیں۔ پاکستان کے اندر بیٹھ کر وہ ڈاکٹرز جن کی روزانہ کی پریکٹس تین سے دس لاکھ روپے ہے وہ بھول کر بھی اپنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہیں جاتے۔ آج سیاست، فوج، کاروبار، عدلیہ، بیور وکریسی اور میڈیکل پروفیشن میں جو بڑے بڑے نام ہیں کیا انہوں نے کبھی اپنے ان خستہ حال تعلیمی اداروں کے لئے کچھ کیا؟
آیئے اب آپ کی توجہ ایک اور اہم مسئلے کی طرف کراتے ہیں۔ ویسے تو ہم برس ہا برس سے صحت کے کئی مسائل پر ارباب اختیار کی توجہ دلا رہے ہیں مگر سنتا کون ہے؟ پاکستان میں 22کروڑ افراد کے لئے صرف 25 ریماٹالوجسٹ یعنی جوڑ، پٹھوں اور ہڈیوں کے ماہرین ہیں۔ یاد رہے آرتھوپیڈک سرجن صرف سرجری کرتے ہیں، روماٹالو جسٹ ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ 25ماہرین صرف بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، کراچی، ملتان اور ساہیوال میں ہیں۔ تھوڑی دیر کو یہ سوچیں کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں کے مریض کیا کرتے ہوں گے؟ وہ تو بیچارے عطائیوں اور ایسے ڈاکٹروں کے ہاتھوں رل جاتے ہیں جنہیں اس بیماری کا علاج کرنا نہیں آتا۔
آپ دیکھیں کے پی اور بلوچستان میں کوئی تربیت یافتہ ڈاکٹر اس بیماری کا نہیں۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ کبھی ہم نے اس پر غور کیا؟ شعبہ صحت میں آج بھی بے شمار اسپتال ایسے ہیں جہاں پر ماہرین کی شدید کمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ٹیچنگ اسپتال میں روماٹالوجی کا شعبہ قائم کیا جائے۔ ڈسٹرکٹ کی سطح پر اسپتالوں میں بھی جوڑوں کے علاج کے لئے سینٹرز بنائے جائیں۔ پاکستان میں جوڑوں کی پہلی ماہر پروفیسر ڈاکٹر نگہت میر کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں جوڑوں کی بیماریوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری ناقص غذا، ورزش کا نہ کرنا، رنگ رنگ کے بیکٹیریا اور جراثیموں کی بھرمار ہو چکی ہے یہ بیماری آٹومیون ہے۔

.
تازہ ترین