• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تین براعظموں پر پھیلی ہوئی دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت، خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جدید جمہوریہ ترکی کے قیام سے لے کر اب تک ترکی کے سیاسی نظام میں سب سے بڑی تبدیلی کی پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اب نظریں 16اپریل کو کروائے جانے والے ریفرنڈم کی جانب مرکوز ہو گئی ہیں۔ اس ریفرنڈم میں ترک با شندے ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے حق میں یا پھر مخالفت میں ووٹ ڈالیں گے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان ملک میں موجودپارلیمانی جمہوری نظام جسے وہ ملک کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں کی جگہ صدارتی نظام قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ وہ برملا کہہ چکے ہیں یہ صدارتی نظام متحدہ امریکہ، لاطینی امریکی ممالک یا پھر فرانس کے صدارتی نظام سے مختلف ہےجو ترکی کے رسم و رواج اور علاقائی خصوصیات کا خیال رکھتے ہوئے تیار کیا گیا، ترک اسٹائل صدارتی نظام ہے۔ صدر ایردوان نئے صدارتی نظام کو ملکی ترقی کا واحد راستہ تصور کرتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین ان پر مطلق العنایت قائم کرنے، ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے، وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی تقرری کرنے جیسے اختیارات حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عوام سے اس نظام کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل کررہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ صدر ایردوان اس وقت دنیا کے سب سے بڑے اسٹریٹجسٹ سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے نہ صرف ترکی کو بلکہ اب یورپ کو بھی اپنے سحر اور گرفت میں لینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہالینڈ، جرمنی، ڈنمارک، آسٹریا جہاں بڑی تعداد میں ترک آباد ہیں ان ممالک کی سیاست میں اپنا اثرو رسوخ دکھانا شروع کردیا ہے۔ صدر ایردوان ترکی کے ایک ایسے رہنما ہیں جن کو مختلف چالوں، حربوں اور بغاوتوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوسکی بلکہ ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ صدر رجب طیب ایردوان جو طویل عرصے سے ملک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کے خواہاں تھے اب کامیابی کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔دراصل صدر ایردوان کی کامیابی میںحزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہےکیونکہ یہ جماعت کسی بھی صورت اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ اس جماعت کو حاصل 25فیصد ووٹروں کی حمایت صدارتی نظام کو متعارف کرانے کی راہ میں کوئی اہم رکاوٹ نہیں ہے۔ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی جسے گیارہ فیصد کے لگ بھگ ووٹروں کی حمایت حاصل ہے بھی ملک میں صدارتی نظام کی مخالفت کر رہی ہے۔ یعنی اس وقت ملک کی حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتیں جن کو کل 35فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے صدارتی نظام کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مل کر کس قدر مزید ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ برسر اقتدار جماعت ’’ جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی‘‘ (آق پارٹی) جس نے نومبر 2015 میں پچاس فیصد کے قریب ووٹ حاصل کئے تھے کےووٹروں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ آق پارٹی کے تمام ووٹ صدر ایردوان ہی کو پڑتے ہیں اور اس پارٹی میں کسی دوسری شخصیت کو ایردوان جتنا اہم مقام حاصل نہیں ہے۔ اگرچہ آق پارٹی سے الگ ہونے والوں میں عبدالطیف شینر پیش پیش ہیں جو ایردوان کے دستِ راست اور نائب وزیراعظم تھے، ایردوان کے خلاف محاذ بنانے کے بعد اپنی سابقہ حیثیت برقرار رکھنے میں ناکام رہے اور عوام نے ان کو یکسر مسترد کردیا جبکہ وزیراعظم احمد داؤد اولو کے مستعفی ہونے کے باوجود پارٹی کی مقبولیت میں کوئی فرق نہ پڑا کیونکہ آق پارٹی پر صرف ایردوان ہی کی گرفت مضبوط ہے۔ اس صدارتی ریفرنڈم میں حزب اختلاف کی ایک اور جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی صدر ایردوان کا بھر پو ساتھ دے رہی ہے۔ اس پارٹی نے نومبر 2015ء کے عام انتخابات میں تقریباً بارہ فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب یہ جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اس جماعت کے چند لیڈروں پر مشتمل ایک چھوٹا دھڑا صدارتی نظام کی مخالفت کرتا ہے لیکن ہالینڈ، جرمنی، ڈنمارک اور آسٹریا کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ترکی کے سیاستدانوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کئے جانے کے بعد یہ چھوٹا دھڑا اس وقت تک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ یہ بات تو طےہے کہ آق پارٹی کو ملنے والے تمام کے تمام ووٹ صدارتی نظام کے حق میں جائیں گے اور اگر ان ووٹوں میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے نو فیصد کے قریب ووٹ( چھوٹے دھڑے کی مخالفت کو مد نظر رکھتے ہوئے) بھی جمع کرلئے جائیں تو ملک میں صدارتی نظام کے متعارف ہونے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ ترکی میں تمام ہی سیاسی رہنماؤں نے صدارتی نظام کے حق میں یا مخالفت میں اپنی سیاسی مہم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ ترکی میں صدارتی نظام نافذ کرنے سے ملک میں مطلق العنانیت اور آمریت کو فروغ ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دوسرے جمہوری ممالک میں بھی صدارتی نظام ہے۔اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیراعظم نے کہاکہ ’’لوگ کہتے ہیں ایک فرد پر مبنی نظام لایا جا رہا ہے۔صدارتی طریقہ کار میں ظاہر ہے ایک ہی صدر ہوتا ہے۔ ایک جہاز کے دو ملاح نہیں ہو سکتے۔‘‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی نظام کے بعد ترک صدر پارلیمان کے سامنے جواب دہ نہیں رہیں گے اور صدر کا عہدہ لامحدود اختیارات کا حامل ہو گا جس کے باعث ملک میں عدلیہ کی خود مختاری بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باعث ملک میں استحکام پیدا ہو گا۔جبکہ ایردوان کے حامیوں کے خیال میں عراق اور شام جیسے ہمسایہ ممالک میں عدم استحکام، داعش اور کرد جنگجوؤں سے لاحق خطرات کے تناظر میں سیاسی نظام کی تبدیلی ملکی استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کے خاتمے کی ضامن ہے۔ایردوان اس ریفرنڈم میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہوں نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سیاسی نظام میں تبدیلی نہ لانے کا فائدہ دہشت گرد تنظیم ’’ پی کے کے‘‘ سمیت دیگر ملک دشمن قوتوں کو ہو گا۔ اس لئے ملک دشمن عناصر ہی صدارتی نظام کی مخالفت کررہے ہیں۔ مملکت کو تقسیم کرنے کے خواہاں افراد ہی صدارتی نظام کی مخالفت کررہے ہیں۔ ایردوان کا کہنا تھا کہ موجودہ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا ہے اور گزشتہ 93برسوں کے دوران جدید ترک جمہوریہ میں 65 حکومتیں بنیں۔ اوسطاً ایک حکومت صرف 16مہینے قائم رہی۔ صرف 2002ء سے اب تک ملک میں واحد جماعت کے برسر اقتدار رہنے کی وجہ سےہی ملک میں سیاسی استحکام قائم ہوا اور ملک نے اس عرصے کے دوران تین گنا ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ فردِ واحد کے اقتدار حاصل کرنے کا جو الزام مجھ پر لگایا جا رہا ہے دراصل وہ میری آڑ میں غازی مصطفے کمال کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ ان کے دور میں ان کے وزیر اعظم عصمت انونو سے سخت اختلافات تھے جس پر عصمت انونو اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے تھے اور عصمت انونو کے صدر ہونے کے دور میں ان کے وزیراعظم سے اختلافات جاری رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کیونکہ کشتی کا ہمیشہ ایک ملاح ہوتا ہے اور دو ملاحوں والی کشتی کی قسمت میں ڈوبنا ہی لکھا ہوتا ہے۔



.
تازہ ترین