• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی برادری اپنی آنکھوں میں بہتراور تابناک مستقبل کے سجائے گئے خوابوں کی تعبیرحاصل کرنے کے لئے دُنیا بھر کے مختلف ممالک میں سرگرم عمل ہے۔دُوسرے ممالک میں پاکستانیوں کو محنتی، جفا کش اور مثبت سوچ رکھنے والی قوم تصور کیا جاتا ہے، یورپی ممالک، وہاں کے سیکورٹی ادارے اورمقامی کمیونٹی دوسری تارکین وطن اقوام کے مقابلے میں پاکستانیوں کے بارے میں بہتر رائے رکھتی ہے۔ پاکستانیوں نے برطانیہ، فرانس، جرمنی، ا سپین، پرتگال ،اٹلی، آسٹریا، یونان، ہالینڈ اور بیلجم میں قانونی رہائشی کاغذات حاصل کرنے کے لئے بزنس، نوکری اور شادی کو ذریعہ بنایا ،تاکہ انہیں غیر قانونی رہائشی ہونے کی وجہ سے ’’ ڈی پورٹ ‘‘ نہ کر دیا جائے ۔یورپی ممالک کی وزارت داخلہ اور خارجہ نے اُن پاکستانیوں کو اپنے شہریوں جیسے حقوق دئیے جنہوں نے وہاں کی مقامی خواتین سے شادیاں کیں ۔دیار غیر میں جا کر بسنے والے ’’ نوجوانوں‘‘ کی پاکستانی ماؤںکے دِلوں میںہمیشہ یہ خواہش زندہ رہتی ہے کہ اُن کا بیٹا جہاں اورجس سے بھی شادی کرے وہ لڑکی ہماری خدمت اور تابعداری میں پیش پیش ہو ۔لیکن یورپ میں آنے والے ’’ کمائو پتر ‘‘ اپنی بیویوں کو ماں کی خدمت کرنے والی بہو کی شکل دینے میں کافی حد تک ناکام رہے ہیں ۔اُس کی پہلی وجہ یورپی اور پاکستانی کلچر، زبان اور رسم و رواج میں زمین آسمان کا فرق ہے اِسی لئے ولایتی بہواوردیسی ساس ایک دوسرے کے لب و لہجے اور رسومات سے نا آشنا رہتی ہیں، اگر کسی پاکستانی بیٹے نے کوشش کی کہ وہ اپنے وطن کی وزارت داخلہ کی اُس سہولت سے فائدہ اُٹھائے جس کے تحت وہ اپنی غیر ملکی بیوی کو پاکستان میں غیر معینہ مدت کے لئے قیام کرواسکے تاکہ اُس کی بیوی پاکستان کے کلچر، زبان اور پہناوے کے حوالے سے سوجھ بوجھ حاصل کر سکے ۔اور یہ سہولت پاکستان اوریجن کارڈ (POC) کے حصول سے ہی ممکن تھی۔ کیونکہ اِس کارڈ کا مقصد ہی یہی تھا کہ غیرملکی بہو یا وہ پاکستانی جو دوسرے ممالک کی شہریت رکھتے ہوئے وہاں کے پاسپورٹ حاصل کر چکے ہیں وہ بغیر ویزہ لگوائے پاکستان میں داخل ہوسکیں، بینک اکاونٹ کھلوا کر اُس کی دیکھ بھال کر سکیں، جائیداد کی خرید و فروخت اور پاکستان میں رجسٹریشن کرانے میں چھوٹ جیسی سہولتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ پاکستانی بیٹے اپنے وطن آکر سرمایہ کاری کریں اور پاکستان کی معیشت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ میرے نوٹس میں ایک ایسی مثال موجود ہے جو یہاں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں ،جرمنی میں مقیم ایک پاکستانی کا تعلق ضلع منڈی بہاوالدین سے ہے ،اُن کی جرمن بیوی پاکستانی خواتین سے کہیں زیادہ اچھی ارُدو اور پنجابی بولتی ہے ،نماز اور روزے کی پابند ہے ،اپنے بچوں کو پاکستان کے اسکولوں میں تعلیم دلوا چکی ہے ،اور اُن کے بچے قرآن پاک بھی پڑھ چکے ہیں، یہ خاندان جرمن پاسپورٹ ہولڈر ہونے کے باوجود پاکستان کے کلچر کا حصہ اُسی پاکستانی اوریجن کارڈ کی وجہ سے بنا ہے اس کی بیوی سال میں کئی بار پاکستان آتی تھی، وہاں کئی ماہ رہتی اورنماز کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار سے متعارف ہوتی رہی ،لیکن اب پاکستانی اوریجن کارڈ کا اجرأ بند کر دیا گیا ہے ،اب اگر کسی غیر ملکی بہو کو پاکستان اپنی سسرال جانا ہو تو اسے ویزے کی درخواست دینا پڑتی ہے ،پاکستانی ویزے کے حصول میں تاخیر اور پھر ویزے کی مدت، ان مشکلات سے بچنے کے لئے غیر ملکی بہو پاکستان جانے سے کتراتی ہے ،بیٹا بھی دیارِ غیر میں اپنی نوکری یا بزنس میں مصروفیت کی وجہ سے پاکستانی سفارت خانے کے چکر نہیں لگا سکتا ،اِ س لئے اب ان جیسے کئی بیٹے اپنی بیویوں کو پاکستان لے جا کر نہ تو کلچر سے متعارف کروا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی ماں کی خواہش کی تکمیل میں اپنا حق ادا کر سکتے ہیں ۔اندازہ کریں کہ جب کوئی پاکستانی یورپی ملک میں شادی کرے تو اُسے اپنی غیر ملکی بیوی کی وجہ سے وہاں کاپاسپورٹ دے دیا جاتا ہے، لیکن ہماری حکومت اور وزارت داخلہ اُس ملک کی بیٹی جو اب پاکستان کی بہو ہے کے لئے بنائی گئی سہولت یعنی پاکستانی اوریجن کارڈ کا اجرابند کر چکی ہے اور یہ بندش بلا وجہ ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی اوریجن کارڈ مختلف ممالک کے اقتصادی اور معاشی تعلقات کی بہتری میں ’’ پل ‘‘ کاکردار ادا کر رہا تھا ۔غیر ملکی بیویوں کے لئے یہ کارڈ دو ممالک کی تہذیبوں کو سمجھنے کابہترین ذریعہ تھا ۔کارڈ کی فیس پاکستانی خزانہ بڑھانے میں مدد کر رہی تھی۔ وزارت داخلہ پاکستان نے اِس کارڈ کا اجرأ بند کیوں کیا ؟ اِس کی وجہ کیا ہے ؟ وزیر داخلہ اور وزیر اعظم پاکستان اِس کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے ؟یہ وہ سوالات ہیں جو تارکین وطن پاکستانیوں کو فکر میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔پاکستانی حکومت تارکین وطن پاکستانیوں کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے میںناکام سہی لیکن یہ پاکستان اوریجن کارڈ کے اجرا کی پابندی کا مسئلہ حل کرنے سے وزارت داخلہ اور حکومتی خزانے کو خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے، ولایتی بہو دیسی ساس کی خدمت کرنے کا موقع حاصل کر سکتی ہے، دو تہذیبوں سے جنم لینے والے بچے اسلامی رسم و رواج سے متعارف ہو سکتے ہیں ،مائیں اپنے بیٹوں سے لگائی گئی اُمیدیں پوری کر سکتی ہیں، وہ اپنی بہووں کو اپنے رسم و رواج سکھا سکتی ہیں ،جو پاکستانی دوسرے ممالک میں مقیم ہیں وہ بھی تو وہاں کی زبان سے نا آشنا تھے، جب غیر ملکی بہو پاکستان میں رہے گی تو ایک دن وہ بھی ارُدو اور پنجابی سمجھ جائے گی ،یہ سب تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب پاکستان اوریجن کارڈ پر لگائی گئی بلاوجہ پابندی کو ختم کیا جائے گا ،پاکستانی حکومت کسی کو وزیر خارجہ نہیں بنانا چاہتی نہ بنائے لیکن پاکستان اوریجن کارڈ کا اجرأ تو یقینی بنا دے ،حکومت پاکستان ملک میں جاری کرپشن کو ختم نہیں کر نا چاہتی نہ کرے لیکن تارکین وطن کو درپیش مسائل تو ختم کر دے، حکومت پاکستان وطن میں سمندر پار پاکستانیوں کی جائیدادوں، مکانات اور بزنس کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکتی نہ بنائے لیکن دوسرے ممالک میں دن رات محنت کرنے والے ’’ کمائو پتروں ‘‘ کی کمائی جو زر مبادلہ کی مد میں پاکستانی معیشت کو طاقتور بنانے میں مدد کر رہی ہے اُن کی غیر ملکی بیویوں کے لئے پاکستان اوریجن کارڈ(POC) کا اجرا تو یقینی بنا دے۔



.
تازہ ترین