• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک ڈچ خبر کے مطابق الزبتھ نامی عورت کو ہائوسنگ سوسائٹی کی طرف سے نوٹس ملا ہے کہ وہ اپنی39بلیوں کے ہمراہ ایک ہفتے کے اندر سٹی کونسل کا مکان خالی کردے کہ علاقے کے لوگوں کا ’’گوڈے گوڈے‘‘ بدبو سے ناک میں دم آگیا ہے۔ میرے لئے یہ کوئی غیر معمولی خبر نہیں کہ کسی عورت کے پاس ڈھیروں بلیاں یا کتے ہیں کہ یورپ میں بلیوں، کتوں اور انسانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور یہ ساتھ برسوں سے رائج جمہوریت کا حصہ ہے۔ غیر جمہوری معاشروں کے افراد غیر جمہوری ہوتے ہیں، بات بات پر جھگڑا، دھینگا مشتی اینٹ پتھر کا استعمال، سر پھٹول، گولی، لاٹھی اور چاقو زنی، قتل ہونا اور قتل کرنا روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں کے افراد بھی جمہوری ہوتے ہیں اور وہ باہمی اختلافات پر اتفاق کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کی پسند اور ناپسند میں اپنی ٹانگ نہیں اڑاتے، اپنی مرضی یا رائے ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مرد اپنی بیویوں کو لونڈیاں یا غلام نہیں سمجھتے اور ان پر اپنی رائے کی تلوار نہیں چلاتے۔ انہی بلیوں کتوں پر مبنی ایک ’’ڈرامہ‘‘ میں نے پچھلے دنوں ایک رسالے میں پڑھا جسے میں اپنے حساب سے پیش کرتا ہوں۔
فریڈا کہتی ہے کہ… مجھے پتہ ہے کہ میرا شوہر مجھ سے محبت کرتا ہے میں اس کے پیار کی سو فیصد قائل ہوں، میں بھی اس کو چاہتی ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ بلیوں کو پسند نہیں کرتا اور میں بلیوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی… اور یہ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ…
بیس برس پہلے میرے شوہر سٹین نے مجھے بلی کا ایک بچہ لاکر دیا وہ مجھے بے حد پسند آیا وہ تھا بھی بے حد پیارا۔ پھر بلیوں سے میری محبت کا آغاز ہوا اور اب اس کی انتہا یہ ہے کہ میرے گھر میں 54بلیاں ہیں جن میں زیادہ تر ایرانی بلیاں ہیں اور میرے گھر کے برآمدے میں 31بلیاں ہیں۔ ہم سب مزے سے رہ رہے تھے کہ آٹھ برس قبل ایک دن سٹین نے غصے میں کہا۔ ’’میں اس گھر میں رہوں گا یا بلیاں… اب میں کیا فیصلہ کرتی۔ میں کہ گوڈے گوڈے بلیوں کی محبت میں غرق ہو چکی تھی۔ میں نے جو فیصلہ کیا اس کے نتیجے میں بلیاں تو تمام کی تمام میرے پاس ہیں لیکن آٹھ برسوں سے سٹین گھر کے باہر ایک ٹریلر میں رہ رہا ہے۔ وہ ان آٹھ برسوں میں صرف ایک بار گھر کے اندر آیا وہ بھی ٹیلی فون سننے کیلئے… میں اسے بالکل منع نہیں کرتی لیکن وہ خود ہی بلیوں سے کھنچا کھنچا رہتا ہے۔ میں مانتی ہوں وہ اب بھی مجھ سے محبت کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ میری بلیوں سے خواہ مخواہ کی نفرت کیوں پال رہا ہے۔ ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے لیکن میں ان 85بلیوں ہی کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتی ہوں۔ آخر اسے ایسا سمجھنے میں کیا قباحت ہے؟ یہ قباحت تو خیر سٹین صاحب ہی بتاسکتے ہیں مگر میں آپ کو یہ بتاسکتا ہوں کہ 95پونڈ فی ہفتہ بلیوں کی خوراک اور دانہ پانی پر خرچ کرنے والی فریڈا یہ رقم دو مختلف جگہوں پر ملازمت کرکے حاصل کرتی ہے اس کے علاوہ کبھی کبھار وہ ویک اینڈ پر صفائی کا کام بھی حاصل کرلیتی ہے جس سے ان کی گزر اوقات آسانی سے ہو جاتی ہے۔
فریڈا کہتی ہے کہ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ بلیوں نے میرے گھر کو تباہ کردیا ہے ان کے پنجوں اور ناخنوں کے نشانات گھر کی دیوار پر نظر آتے ہیں فرنیچر کا بھی ستیاناس کردیا ہے لیکن کیا کیا جاسکتا ہے چیزوں کو تو ہم تبدیل کرسکتے ہیں مگر میری بلیاں تو تبدیل نہیں ہوسکتیں‘‘۔ فریڈا کے کسی جاننے والے نے جب یہ کہا کہ وہ اپنے شوہر کو واپس گھر میں بلالے تو اس نے کہا کہ بڑے شوق سے وہ آجائے لیکن اس کو بلیوں کے ساتھ رہنے کی عادت ڈالنی پڑے گی لیکن سٹین ابھی اس بات پر تیار نہیں ہے اور 35برس پرانا یہ شادی شدہ (کاغذوں میں) جوڑا اب ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کے اصول پر زندگی گزار رہا ہے کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا…



.
تازہ ترین