• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی میں اپنے کسی واقف سے خاص طور پر اگر ان سے کئی دن بعد ملاقات ہو تو یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ اپنی زندگی سے خوش ہیں؟ سوال کسی حد تک ان رسمی کلمات سے ذرا مختلف ہے کہ ہیلو، کیا حال ہے، آپ کیسے ہیں؟ جواب بھی سوچے سمجھے بغیر دیا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے، اللہ کا احسان ہے، گزر رہی ہے، ہاں ٹھیک ہوں۔ لیکن اگر کوئی واقعی اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرے کہ کیا وہ اپنی زندگی سے خوش ہے تو ٹھہر کر کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ خوشی یا مسرت کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ ایسے لوگ بھی اپنی مجلسی زندگی میں خوش دکھائی دیتے ہیں جن کے دل پر دکھوں اور محرومیوں کا بوجھ ہوتا ہے اور کئی خوشحال اور کامیاب افراد رونی صورت لیے پھرتے ہیں، گویا یہ انفرادی مزاج اور رویے کا معاملہ ہے۔ تربیت اور ماحول سے بھی فرق پڑتا ہے، کسی کو ہر حال میں خوش رہنا آتا ہے اور کوئی دولت کے انبار پر بیٹھ کر بھی لالچ اور حسد کی آگ میں سلگتا رہتا ہے۔ پھر بھی سماجی اور معاشی ماہرین یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی فرد یا کوئی معاشرہ کتنا خوش ہے۔ امریکہ کے تو آئین میں یہ درج ہے کہ ہر فرد کو زندگی اور آزادی کے حق کے ساتھ ساتھ مسرت حاصل کرنے کی جستجو کا بھی حق ہے۔ اس موضوع پر بھی باقاعدہ تحقیق کی جاتی ہے کہ ایک اچھی اور مطمئن زندگی کی شرائط کیا ہیں اور اس کے حصول کے لیےکوئی کیا کرسکتا ہے۔
اس تمہید کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس ہفتے ’’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ‘‘ یعنی مسرت کی عالمی رپورٹ جاری ہوئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کونسا ملک کتنا خوش ہے یا یہ کہ کس ملک کی خوشیوں کا خزانہ کتنا بڑا ہے۔ اس سال ناروے سرفہرست ہے اور جن 155 ملکوں کو اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اب یہ توقع تو نہیں کی جاسکتی کہ ہم دولت مند اور ہنستے کھیلتے ملکوں کے ساتھ اگلی صف میں کھڑے پائے جائیں گے البتہ ہم جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں سے آگے ہیں اور انڈیا کو ہم نے بہت پیچھے چھوڑدیا ہے۔ ہے ناں ایک ایسی بات کہ ہم کھلکھلا کر ہنس دیں یا کم از کم اعتماد کے ساتھ مسکرا تو دیں۔ ہمارا نمبر 80 ہے اور انڈیا بہت پیچھے 122 ویں نمبر پر ہے۔ یہ فرق کیوں ہے اور رپورٹ میں کن خصوصیات کو پیمانہ بنایا گیا ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ صرف معاشی ترقی کسی معاشرے کو مسرت کا تحفہ نہیں دے سکتی۔ انڈیا اور پاکستان کی درجہ بندی اس کا ایک ثبوت ہے۔ لیکن اس رشتے کا سب سے حیرت انگیز نمونہ چین ہے۔ حالیہ دہائیوں میں چین نے معاشی سطح پر جو ترقی کی ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں لیکن رپورٹ کا ایک تبصرہ یہ ہے کہ چین کے عوام 25 سال پہلے جتنے خوش تھے اتنے ہی آج ہیں۔ امریکہ دنیا کا سب سے مالدار اور طاقتور ملک ہے اور رپورٹ میں اس کا نمبر 14 ہے۔ صرف جنوبی ایشیا کے ملکوں کا اسکور دیکھیں تو بنگلہ دیش کا نمبر 97 ہے۔ نیپال دو قدم پیچھے ہے اور سری لنکا 120 ویں نمبر پر ہے۔ اس ’’ہیپی نیس‘‘ رپورٹ پر اس مختصر کالم میں کسی تفصیلی گفتگو کی تو بالکل گنجائش نہیں ہے۔ بس یہ اشارہ ضروری ہے کہ عام لوگوں کی مسرت کا سماجی ترقی سے ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پھر اجتماعی کردار اور انداز فکر کا بھی اس میں دخل ہوتا ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ جو پردیسی پاکستان آتے ہیں وہ ہماری مہمان نوازی اور ملنساری سے کتنا متاثر ہوتے ہیں۔یوں تو پاکستان کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں اور دہشت گردی اور امن عامہ کے مسائل نے اس کی اجتماعی زندگی کو مجروح کیا ہے۔ لیکن مسرت کی دوڑ میں اس کی کارکردگی اس لیے ہماری خوشیوں میں اضافہ کرسکتی ہے کہ ہم اپنے دیرینہ حریف سے بہت آگے ہیں۔ شاید اگر یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے حریف نہ ہوتے اور محبت کرنے والے پڑوسیوں کی طرح جی سکتے تو ان دونوں کا نہ صرف اس رپورٹ بلکہ ہر رپورٹ میں مقام کافی بلند ہوتا۔
جہاں تک خوش ہونے کی بات ہے تو اس ہفتے ہم نے یوم پاکستان بھی منایا ہے۔ سرکاری سطح پر اس دن کی تقریبات اپنی جگہ، شہریوں کو بھی اس دن کی گہما گہمی میں شریک ہونے کا اچھا موقع ملا۔ ہماری اجتماعی زندگی میں ایسے دنوں کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس طرح عام لوگوں کو سیروتفریح کے ایسے مواقع حاصل ہوتے ہیں جن سے وہ اکثر محروم رہتے ہیں۔ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی یوں بھی کافی کمی ہے۔ پھر انتہا پسند اور قدامت پرست حلقے لوگوں کو ہنستے کھیلتے اور گاتے، ناچتے نہیں دیکھ سکتے۔ لاہور میں پشتون طلبا کی ثقافتی تقریب پر جس طرح پنجاب یونیورسٹی میں دھاوا بولا گیا وہ عدم برداشت اور ثقافتی تنگ نظری کی ایک اچھی مثال ہے۔ اس لیے جہاں جہاں بے خوفی کے ساتھ دوسرے شہریوں کے ساتھ، گھر سے باہر کی فضا میں ہنسنے بولنے کا موقع ملے تو وہ بہت غنیمت ہے۔ یہ معاشرے کی ذہنی اور روحانی صحت کو قائم رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر ہم مسرت سے آگے کی بات کریں اور کسی معاشرے کی تہذیبی ترقی اور تخلیقی صلاحیت کی افزائش کا جائزہ لیں تو اجتماعی تقریبات کی قدیم تاریخی اہمیت نمایاں ہوگی۔ ایک تو ہر مذہب کے اپنے تہوار ہوتے ہیں دوسرے موسموں کی تبدیلی کے بھی اپنے علاقائی جشن منائے جاتے ہیں۔ صدیوں سے انسان کی زندگی موسموں کی تحویل میں رہی ہے، ہر موسم کی الگ رسومات اور دعائیں ہوتی ہیں۔ کب فصل بوئی جاتی ہے،کب اس کی کٹائی ہوتی ہے، ہم کہ جو شہروں میں رہتے ہیں موسم سے انسانوںکے جذباتی رشتوں کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے، البتہ موسموں کی تبدیلی ہمارے معمولات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ میں دراصل سال کے مختلف دنوں میں منائے جانے والے تہواروں کی بات کررہا ہوں اور اس سلسلے میں بہار جیسے پھولوں کا تاج پہن کر آتی ہے۔ یہ ایک نئے آغاز کی پیامبر ہے اور دنیا کے ہر خطے میں اس کا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے۔ ہندوئوں کا تہوار ہولی بھی بہار کا رنگ لے کر آتا ہے۔ اس دفعہ کراچی میں وزیراعظم نوازشریف نے ہولی کی تقریب میں پاکستان کے روشن خیال مستقبل کا خاکہ پیش کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس مستقبل کے راستے میں انتہا پسندی اور قدامت پرستی کے سنگلاخ پہاڑ کھڑے ہیں۔
یہ ایک اچھا اتفاق ہے کہ یوم پاکستان کا ایک تعلق بہار کی آمد سے بھی ہے اور 23 مارچ سے دو یا تین دن پہلے نوروز کا تہوار منایا جاتا ہے جو ایران اور اس کے پڑوس کے چند ملکوں میں عوامی زندگی کی رگوں میں سرایت کرچکا ہے۔ اس کی کئی رسومات قدیم زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ اس سال نوروز پیر کے دن یعنی 20 مارچ کو منایا گیا۔ اس کا تعلق زمین کی گردش سے یوں ہے کہ جب دن اور رات برابر ہوجاتے ہیں تو نوروز کا آغاز ہوتا ہے اور فلکیات کے ماہر اس خاص لمحے کا تعین کرتے ہیں، ایسا دو دفعہ ہوتا ہے۔ بہار میں 20 مارچ اور خزاں میں 22 ستمبر کے آس پاس، ایران ایک مسلمان ملک ہے اور 1979 ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے یہاں ایک مذہبی جماعت کی حکمرانی ہے۔ پھر بھی نوروز ایران کا سب سے بڑا اور اہم تہوار ہے جو 12 دن تک جاری رہتا ہے۔ ایران کے کیلنڈر کا نیا سال نوروز سے شروع ہوتا ہے، چلتے چلتے بس ایک رسم کا ذکر۔ نوروز سے پہلے، سال کے آخری بدھ کو چہار شنبہ سوری کہا جاتا ہے کہ اس دن کی رات کو سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے الائو سلگائے جاتے ہیں اور لوگ ان کو پھلانگ کر گویا سرما کو خدا حافظ اور بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کچھ کا خیال یہ بھی ہے کہ اس طرح ان کے گزشتہ سال کے گناہ آگ میں بھسم ہوجاتے ہیں۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ اب ایک نئے سال سے عہدوپیمان کیے جائیں اور گزرتے وقت سے اپنا رشتہ قائم رکھا جائے۔ ہم اپنے گزرتے وقت سے کیا رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں؟

.
تازہ ترین