• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاہ رخ خان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر لوگ اسکی فلموں کا بائیکاٹ کردیں تو وہ بھی عام مسلمانوں کی طرح سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا نظر آئے گا۔ مدر ٹریسا ہندوستان کو انسانی خدمت کے نام پر عیسائی بنانے کے مشن پر گامزن تھی۔ بھگوان شنکر نے یوگا کا آغاز کیا، مہا دیو اس ملک کے ہر ذرے میں موجزن ہیں، جو لوگ یوگا اور بھگوان شنکر سے بچنا چاہتے ہیں، ہندوستان چھوڑ جائیں۔ یہ یوگی ادیتیاناتھ کے صرف چند متنازع لیکن قابلِ بیان ارشادات ہیں۔ باقی جو متنازع بیانات سامنے آ رہے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ مذہبی انتہا پسند سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ رہنما ہندوستان میں سیکولرازم کا سخت دشمن ہے کیونکہ سیکولر ازم کا تقاضا ہے کہ تمام شہری برابر کے شہری ہیں اور سب کا ہندوستان پر برابر کا حق ہے۔ یوگی دیتیاناتھ مسلمانوں کی جبرا مذہب تبدیلی کی مہمات چلاتا ہے اور سوال اٹھایا جائے تو وہ وہی جانا پہچانا عذر پیش کرتا ہے کہ لوگ اپنی مرضی سے مذہب تبدل کرنا چاہتے ہیں۔ یوگی کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ بیان میں گردش کر رہا ہے کہ اگر ان لوگوں کو موقع ملا تو وہ ہر مسجد میں گنیش کی مورتی رکھیں گے۔ یوگی گورکھ پور کے ایک مندر کا مہنت ہے جو 1998 سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تعلق اسکا راشٹریہ سیوک سنکھ اور اسکی سیاسی شاخ بھارتیہ جنتا پارٹی سے ہے۔ جیسا کہ دنیا بھر میں مذہب کو سیاست میں مکس کرنے والی سیاسی جماعتوں کا چلن ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کا محور مذہبی اقلیتوں کے خلاف لوگوں کے مذہبی جذبات ابھارنا اور پھر برانگیختہ مذہبی جذبات کو اپنے سیاسی حلقے کو وسیع کرنے کیلئے استعمال کرنا رہا ہے۔ "مودی لہر" کی بنیاد اسی سیاسی حکمت عملی پر استوار تھی جو ہندوستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کیلئے واقعتا ایک سونامی ثابت ہوئی۔ مودی کو منتخب کر کے بھارتی جمہوریت نے جمہوری طریقہ کار سے اپنی قبر کھود لی۔ ہندوتوا کا خطرناک سیاسی مذہبی نظریہ پھیلتا ہی جا رہا ہے اور حالیہ تین ریاستی انتخابات میں اس نظریے نے جمہوریت کی قبر کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
اتر پردیش ہندوستان کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے۔ اسکی آبادی پاکستان کی آبادی سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ اتر پردیشں کی بیس فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن بی جے پی نے حالیہ الیکشن میں ایک ٹکٹ بھی کسی مسلمان کو نہیں دیا اور اسکے باوجود انتخابات میں کلین سویپ کیا۔ اب مسلمان دشمنی کے سمبل یوگی ادیتیاناتھ کو یو پی کے وزیر اعلیٰ کیلئے نامزد کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں جمہوریت جمہوریت کو کھا رہی ہے جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔پاکستان میں تو جمہوریت کبھی ڈھنگ سے قائم ہی نہیں ہوئی، سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں اصل مقتدرہ کون ہے۔ مسلم لیگ کے "کھوٹے سکے" جب نہ چل سکے تو اقتدار پہلے سیاستدانوں کے ہاتھ سے کھسک کر انتظامی بیوروکریسی اورپھر وہاں سے کھسک کر سابق جنرل اسکندر مرزا سے ہوتا ہوا حاضر سروس جنرل ایوب کے ہاتھ لگ گیا اور اکا دکا مختصر وقفوں کے علاوہ آج کے دن تک وہیں کا وہیں ٹکا ہوا ہے۔ جمہوریت کا نعرہ لگا کراقتدار حاصل کرنے والے جو آمر سامنے آئے ان کا ظہور بھی جن نرسریوں میں ہوا ہم سب جانتے ہیں۔ عوام کو جب بھی جمہوری حق استعمال کرنےکا موقع ملا انہوں نے آمروں اور مذہبی انتہا پسندوں کو مسترد کیا لیکن ضیا کے مارشل لا میں دونوں نے اتحاد کر لیا اور اس وقت سے ریاست اور مذہبی انتہا پسندی کا گٹھ جوڑ جمہوریت کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔
مغربی سرحد پر نظر دوڑائیں تو ایران میں جمہوریت ایک دھوکہ ہے۔ افغانستان میں جمہوریت کا کبھی وجود ہی نہیں رہا۔ ایک استثنا ترکی کی شکل میں موجود تھا لیکن وہاں پر جس بری طرح طیب اردوان پچھلے کئی سالوں سے طاقت کا اپنے ہاتھوں میں ارتکاز کر رہے ہیں، نتیجہ نکالنا مشکل نہیں۔ بڑی طاقتوں پر نظر دوڑائیں تو چین اور روس میں جمہوریت کا نام و نشان نہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کی شکل میں بھارت والے حادثے کا ایکشن ری پلے ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں بھی جمہوریت جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ اگرچہ امریکہ میں اس عمل کے خلاف بھرپور مزاحمت دیکھنے میں آ رہی ہے، ٹرمپ کی مخالفت میں جو لاکھوں لوگ خصوصا خواتین سڑکوں پر آئیں، امریکی عدالتیں جمہوریت پر حملوں کے سامنے ڈھال بن کر سامنے آ رہی ہیں, ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈرز ٹرمپ کے پاگل پن کے سامنے مزاحمت کی ایک آواز بن کر ابھر رہے ہیں، لیکن ٹرمپ کا جمہوری انتخابات کے ذریعے صدر منتخب ہونا بذاتِ خود امریکی جمہوریت کی پسپائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
صرف یورپ جہاں پر جمہوریت جیسی انسان دوست تحریک نے جنم لیا، ابھی تک محفوظ نظر آ رہاہے۔ پہلے پاکستانی نژاد محمد صادق لندن کے مئیر منتخب ہوئے جو برطانوی سیاست میں وزیر اعظم کے بعد اہم ترین عہدوں میں شامل ہے۔ اب ہالینڈ میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت اور سنسنی پھیلانے والے گیرٹ ولڈرز کو شکست ہوئی ہے۔ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہالینڈ میں انتہائی دائیں بازو کی شکست کا اثر یورپ میں مستقبل قریب میں ہونے والے فرانس اور جرمنی کے عام انتخابات میں بھی پڑے گا۔ اگر یورپ میں جمہوریت انتہائی دائیں بازو کی رجعت پسندی سے محفوظ رہی تو شاید امید کا دیپ روشن رہے لیکن مستقبل کی دو سپر پاورز میں جمہوریت ندارد ہے اور باقی دو میں تیزی سے آمریت کی رجعت پسندی غالب آ رہی ہے۔ یورپ میں اگرچہ انتہائی دائیں بازو کی انتہا پسندی انتخابات ہار رہی ہے لیکن وہاں بھی وہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ سیٹیں حاصل کر رہی ہے۔ آج کی تلخ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ 1215 میں میگنا کارٹا کی شکل میں شروع ہونے والی عوامی حکمرانی اور مطلق العنانیت کے درمیان جنگ میں جمہوریت پسپائی کا شکار نظر آ رہی ہے۔

.
تازہ ترین