• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب میں اعلیٰ تعلیم (Higher education) کی وزارت کیلئے پہلی بار باقاعدہ وزیر مقرر ہواتو اس اقدام کا خیر مقدم کیاگیا۔ بجا طور پر امید بندھی کہ اب اس شعبہ پر زیادہ توجہ مرکوز ہو سکے گی۔ یہ وزارت سید رضا گیلانی کو سونپی گئی ۔رضا گیلانی خود بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ نامور پاکستانی اور امریکی درسگاہوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد وہ کافی متحرک نظر آئے۔ چند روز قبل انہوں نے کالجوں کی اصلاح احوال سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کی۔اجلاس میں جدید لائبریریوں اور لیبارٹریوں کے قیام، ٹرانسپورٹ کی فراہمی، پینے کے صاف پانی کے پلانٹس کی تنصیب اور دیگر سہولتوں کی فراہمی جیسے معاملات زیر بحث آئے۔ گیلانی صاحب نے ہدایت دی کہ طالب علموں کو احکام الہیٰ اور سیرت نبوی ﷺ سے آگہی فراہم کرنے کا اہتمام کیا جاناچاہئے۔ اسی تناظر میں یہ بھی تجویز ہوا کہ طالبات کو حجاب کی طرف راغب کیا جائے۔ حجاب کرنے والی بچیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے، انہیںحاضری میں 5 فیصد رعایت دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ یہ محض ایک تجویز تھی۔ حتمی فیصلہ اورپالیسی سازی کابینہ کی منظوری سے مشروط ہوتے ہیں۔
جیسے ہی اجلاس کی خبر میڈیا کو ملی، ایک طوفان بپا ہو گیا۔ دیگر تجاویز کا تو ذکر نہیں کیا گیا، مگر حجاب والا معاملہ خوب اچھالا گیا۔ ہر کسی نے حسب توفیق طبع آزمائی کی۔ کسی نے اس بیان کو آزادی نسواں پر حملہ قرار دے ڈالا۔ کسی نے اس تجویز کو بندوق کے زور پر اسلام کے نفاذ کی کوشش سے تعبیر کیا۔ اسقدرشور مچا جیسے رضا گیلانی نے انتہائی غیراخلاقی یا خدانخواستہ غیر اسلامی تجویز پیش کر دی ہو۔ وفاق اور پنجا ب حکومت کو اس بیان سے لا تعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ وضاحت کی گئی کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں بلکہ وزیر کا ذاتی بیان ہے۔
حجاب کبھی بھی میرے معمولات حیات کا حصہ نہیں رہا۔لہذا میں اس معاملے کی وکالت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ تاہم رضا گیلانی (جو بظاہر ایک لبرل آدمی ہیں) کی طرف سے ایک مثبت اور عین اسلامی امر کی ترغیب کو جس منفی انداز میں اچھالا گیا، وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ ہماری کچھ دینی اقدار اور سماجی روایات ہیں ۔ انکی تقلید و حمایت کو ہمارے ہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوپٹہ اور پردہ ہماری سماجی روایات کا حصہ ہیں۔ حجاب بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ کیا ہم اس امر سے منکر ہو سکتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں خواتین کو پردے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگر حجاب کے فروغ یا ترغیب کیلئے کوئی معمولی رعایت یا incentive کی تجویز دی گئی تو اس میں کیا قباحت تھی؟ کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ مگر کیا یہی دین ہمیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ہدایت نہیں کرتا؟ مان لینا چاہئے کہ وہ روشن خیال افراد یا حلقے ، جو حجاب کی مخالفت میں سامنے آئے ، انکا نقطہ نظر درست تھا۔ مہذب سماج ہر ایک کو اپنا نقطہ نظر پیش کرنے اور اختلاف رائے کا حق دیتا ہے۔ مگر کیا صرف ــــ" حجاب مخالف" طبقات کو اپنی بات کہنے اور منوانے کا حق حاصل ہے ؟ حجاب کی تائید و حمایت سے متعلق نقطہ نظر کو رد کر دینا چاہئے؟ایسی آوازوں کو لعن طعن کر کے خاموش کروا دینا چاہئے ، جیسا کہ ہم نے کیا۔ اسلام اور اسلامی تعلیمات کا نفاذ ڈنڈے کے زور پر ہر گز نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل اسی طرح لبرل سوچ کو بھی زور زبردستی ہر کسی پر مسلط نہیں کیا جانا چاہئے۔ بزور طاقت اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسنے کا حق کسی مولوی کو حاصل ہے نہ کسی روشن خیال کو ۔ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہمارے ہاں ایک قدامت پرست طبقہ موجود ہے۔ اگر ہم ایک بلند آہنگ اقلیت (vocal minority ) کی وجہ سے خاموش اکثریت (silent majority) کو نظر انداز کرتے ہیں تو ہم بہت بڑی زیادتی کے مرتکب ہوں گے۔
جہاں تک خواتین کے حقوق اور آزادی کا تعلق ہے تو اسکی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ حقوق نسواں کیلئے جن افراد یا تنظیموں نے برسوں کاوشیں کیں انکی بھی تحسین ہونی چاہئے۔ تاہم خواتین کی آزادی فقط روشن خیال طبقے کی دین نہیں ہے۔ اسلامی اور سیاسی تاریخ پر نگا ہ ڈالیں ، ہمارے ہاں یہ آزادی ہمیشہ سے موجود تھی۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں پہلی بار کسی خاتون) ہیلری کلنٹن )نے صدارتی انتخاب لڑا ہے۔ پاکستان میں برسوں پہلے یہ کام ہو چکا۔ محترمہ بینظیر بھٹو دو بار ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔پچاس برس قبل محترمہ فاطمہ جناح نے ڈکٹیٹر ایوب خان کے مقابل صدارتی انتخاب لڑا تھا۔ اس سے قبل تحریک پاکستان میں خواتین سرگرم عمل رہیں۔قائد اعظم کا پیغام گھر گھر پہنچاتی رہیں۔ گرفتارہوتی رہیں۔ جیلوں میں ڈالی گئیں۔ مگر دوپٹہ، حجاب بلکہ شٹل کاک برقعہ بھی انکی راہ میں رکاوٹ نہ بنا ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ چودہ سو سال قبل حضرت خدیجہ تجارت (business) کیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں بھی خواتین جنگیں لڑا کرتی تھیں۔ لہذا روشن خیالی اور آزادی نسواں ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔
ہائیر ایجوکیشن کے وزیر کے بیان پر مسلم لیگ(ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اسقدرمعذرت خواہانہ طرز عمل اور حجاب کی حمایت سے گریزدیکھ کر افسوس ہوا۔ ایک رہنما نے تو یہ بھی کہہ دیاکہ گیلانی صاحب(جو کہ گدی نشین ہیں) اپنی مریدنیوں کو حجاب کروائیں۔ کیا اسلام میں حجاب کی تلقین فقط مریدنیوں کے لئے ہے؟ مسلم لیگ (ن) تو چلیں کچھ عرصہ سے خود کو روشن خیال جماعت ثابت کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ مگر وہ جماعتیں اور تنظیمیں جنکی عمارت ہی اسلام کے نام پر استوار ہے ، انہوں نے بھی اس معاملے میں چپ سادھے رکھی۔ کسی نے اس تجویز کی حمایت میں کوئی بیان جاری نہ کیا۔ خاص طور پر جماعت اسلامی کے طرز عمل پر دکھ ہوا۔ یہ وہ جماعت ہے جو ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات کا درس دیتی ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی اور دیگر خواتین پردے اور حجاب کے فروغ کیلئے باقاعدہ مہم چلاتی ہیں۔ جب جامعات میں ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے ، جماعت ـ" یوم حیا" کا اہتمام کرتی ہے۔ رضا گیلانی کے بیان کے اگلے روزڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے یوم خواتین کے تناظر میں ایک بہت بڑی کانفرنس کا انعقاد کر رکھا تھا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق مہمان خصوصی تھے۔ امید تھی کہ سراج الحق صاحب حجاب کے باب میں کچھ فرمائیں گے۔ وزیر صاحب کو اس اچھی تجویز پر تھپکی دیں گے ۔ تاہم انہوں نے خاموشی اختیار کی۔ شاید وہ مخالف سیاسی جماعت کے وزیر کو شاباشی دے کر ، اس جماعت کو تقویت فراہم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ افسوس کہ جماعت نے حجاب جیسا معاملہ بھی سیاست کی عینک سے دیکھا ۔
لبرل طبقے کا موقف ہے کہ مذہب اور صنف کے نام پر امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے ہاں یہ امتیاز تو برسوں سے روا ہے۔ حفاظ قرآن کو اعزازی اضافی نمبر دئیے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کالجوں میں بچیوں کیNCC تربیت پر بیس نمبر مختص تھے۔ آج بھی اسپورٹس کے نام پر طلبا کو حاضریوں سے کامل استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ، تحریک پاکستان میں کردار ادا کرنے والے طلبا کو امتحانات دئیے بنا ڈگریاں عطا کی گئیں۔ تو کیایہ امتیازی سلوک میرٹ کی خلاف ورزی کے ذمرے میں آتاہے؟ بات یہ ہے کہ ہر معاملے کو مخصوص حالات اور پس منظر کے تناظر میں دیکھا اور پرکھا جانا چاہئے۔ حجاب کی تجویز کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے تھا۔ مگر ہم تو لٹھ لے کر وزیر موصوف کے پیچھے پڑ گئے۔اگر مثبت بات کی ترغیب کو اسی طرح کسی کا جرم قرار دینے کی روایت چل نکلی تو آئندہ کوئی بھی شخص اسلام یا اخلاقیات کی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا۔

.
تازہ ترین