• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقاضے بھی بہت ہیں اور مواقع بھی کم نہیں اور خدشات ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے۔ پٹھان کوٹ پر حملے کے حوالے سے اُلجھنیں ابھی سلجھائی جا رہی تھیں کہ سعودی-ایران مناقشے نے آن لیا۔ صدر اوباما نے پاکستان اور کچھ دوسرے ملکوں کے ممکنہ عدم استحکام کے بارے میںخدشات کا عندیہ دیا ہی تھا کہ بھارت کے وزیرِ دفاع منوہر پاریکر نے سرحد پار دہشت گردی کے منصوبہ سازوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی صورت میں سال بھر میں (خطرناک) نتائج کی دھمکی دے ڈالی۔ داعش نے اگر جلال آباد میں پاک سفارتی مشن پر حملے کی ذمہ داری لی تو جند اللہ نے کوئٹہ میں پولیو کے خاتمے کی مہم کے مرکز پر دہشت گرد حملہ کر دیا اور دہشت گردی کے خدشے میں پشاور کےا سکول بند کرنے پڑے۔ ابھی پاک چین اقتصادی را ہداری کی منصوبہ بندی کا مرحلہ ہی تھا کہ صوبوں کے خدشات نے فضا مکدر کر دی۔ ہر نیا دن، ایک نیا مسئلہ اور بھانت بھانت کے خدشات پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملے کے منصوبہ سازوں کی اشتعال انگیزی کے چیلنج کو پاکستان اور بھارت نے اس بار باہم دست و گریباں ہونے کے موقع کی بجائے باہمی تعاون کے موقع میں بدل دیا۔ کشیدگی کو حسنِ تعاون میں بدلنے کی صلاحیت جو ہمارے ہاں صدیوں سے ناپید رہی۔ لیکن پرانی عادتیں کہاں اتنی جلدی چھوٹتی ہیں۔ خارجہ سیکرٹریوں کی 15 جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات ریاستی دائو پیچ کی نذر ہو گئی۔ خدشات کے بادل پھر منڈلانے لگے اور بات چیت پھر سے یرغمال ہوئی۔ عرصہ ہوا ھنوئی پر بموں کی بارش ہو رہی تھی مگر ویت نام و امریکہ کے پیرس میں ہونے والے مذاکرات معطل نہ ہوئے اور اُن کے ایلچی ہفتہ وار اجلاس کے مخصوص وقت و دن پر ملتے رہے۔ گفت و شنید سے معاملات طے کرنے کی دو طرفہ استقامت تھی کہ ویت نام کی جنگ ختم ہوئی۔ دو طرفہ یقینِ محکم ہو تو کوئی اشتعال انگیزی فہم و فراست سے معاملات کو حل کرنے کی صبر آزما راہ سے نہیں ہٹا سکتی۔ پٹھانکوٹ نے جہاں ایک بڑا تقاضا کھڑا کیا، وہیں اُس نے بڑا موقع پیدا کر دیا۔ اگر پاک بھارت ریاستی ادارے دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے کمربستہ ہو جائیں تو خطے میں اس عفریت کو لگام دینا کتنا آسان ہو جائے۔ اس کےلئے ضروری اداراتی اقدامات کی ضرورت ہے اور یہ کام دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیر بخوبی کر سکتے ہیں۔ کیوں نہ ایک دو طرفہ اداراتی میکینزم تشکیل دیاجائے جو ایسے واقعات کی روک تھام، چھان پٹک اور انصاف کے حصول کو یقینی بنائے۔ ایسی مثالیں بہت ہیں سیکھنے کو، اگر سیکھنے والے ہوں۔ ورنہ وہی چال بے ڈھنگی۔ ایک ہی طرح کے مسئلے کو ایک ہی طرح سے حل کرنے کی پرانی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے، مختلف نتائج کی اُمید رکھنے کی روش پر عقل کا تماشہ تو لگ سکتا ہے، عقل مندی نہیں۔ دونوں وزرائے اعظم دہشت گردی کے خلاف تعاون کے موقع کو پھر سے ہاتھ سے نہ جانے دیں، اسی میں سب کی بھلائی ہے!
سعودی عرب اور ایران میں علاقائی کھچائو ہمارے قومی اوسان خطا کرنے کو کافی تھا اور ہم تھے کہ تشکر کے جذبات سے نڈھال۔ بھلا ہو حزبِ اختلاف اور خود وزیراعظم نواز شریف کی معاملہ فہمی کا کہ پاکستان 34 مملکتی فوجی اتحاد میں جا کر بھی اُسی راہ پہ واپس پلٹ آیا جو یمن کے بحران پر پاکستان نے اختیار کی تھی۔ اب میاں نواز شریف اور جنرل راحیل شریف بانہوں میں بانہیں ڈال کر میدان میں اُترے ہیں کہ ہر دو برادر ملکوں میں بیچ بچائو کرایا جائے۔ پاکستان کا ایک کے خلاف دوسرے کا حمایتی بننا ہمارے قومی مفاد میں نہیں اور نہ ہی خطے کے مفاد میں۔ پہلے ہی مشرق وسطی طوائف الملوکی کا شکار ہے، ٹوٹتی ریاستوں سے داعش ایسے ہوشربا درندے برآمد ہو رہے ہیں کہ عرب و عجم کی آگ بھڑکائی جائے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے اس کردار کی ستائش کی ہے اور ایران بھی خفگی کے باوجود راضی دکھائی دیتا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں، چین کے صدر شی جن پنگ یہی مشن لئے تہران اور جدہ جا رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کے وزیرخارجہ و دیگر عالمی شخصیات بھی اسی کوشش میں ہیں کہ معاملات سدھارے جائیں۔ بہتر ہوتا کہ پاکستان 34 مملکتی فوجی اتحاد میں شامل نہ ہوتا۔ لیکن کسی بھی طرح کے فوجی کردار سے معذرت کر کے حکومت نے سفارت کاری کے لئے کچھ جگہ تو بنائی ہے۔ اگر وزیراعظم برادر ملک کے ایلچی کے طور پر بھی ایران جائیں گے، تب بھی یہ زیادہ برا نہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے عالمی قوتوں سے معاہدہ کر کے ایران عالمی معاشی پابندیوں سے آزاد ہو چلا ہے اور اب اُس کے سینکڑوں ارب ڈالرز اُسے واگزار کئے جا رہے ہیں۔ کامیاب سفارت کاری پر ایران کے صدر حسن روحانی نے عرب بھائیوں کو دعوت دی ہے کہ باعزت سفارت کاری سے تمام علاقائی معاملات کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے اس سے بہتر موقع کیا ہوگا کہ وہ ان دونوں ملکوں میں ایک ایماندار پیغام رساں کا کردار ادا کر سکے۔ عالمی معاشی بندشیں ہٹنے سے اب پاکستان کے ایران کے ساتھ کاروباری معاملات کی وسیع منڈی دستیاب ہو جائے گی اور ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پر فوری کام شروع کیا جا سکے گا۔ ایران-سعودی معاملات جلدی حل ہونے والے نہیں اور ہمیں اپنا مثبت کردار برقرار رکھنا چاہیے کہ باہر آگ لگے اور نہ ہمارے گھر میں در آئے!ابھی یہ سب جل رہا تھا کہ سوموار کو کابل میں پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان کے نمائندے ملے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لئے طالبان کو کسی طرح بات چیت کی میز پر لایا جائے۔ اس وقت پاکستان اور افغانستان میں یہ اختلاف ہے کہ افغانستان بات چیت کے لئے پیشگی شرائط نہ لگائے، سبھی سے بات چیت کرے اور یہ فیصلہ بعد میں کیا جائے کہ کون مذاکرات نہیں چاہتا اور امن کو تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ جبکہ افغانستان کا اصرار ہے کہ دہشت گردی بند ہو، فائر بندی ہو اور جو اس پر تیار نہ ہوں ان سے لڑا جائے۔ حالانکہ پاکستان صدر اشرف غنی کو یقین دلا چکا ہے کہ جو افغانستان کا دشمن ہے ہمارا دشمن ہے اور یہ کہ تشدد کی آگ بھڑکانے والے قابلِ مذمت ہیں۔ مذاکرات کا چار ملکی فورم بھی ایک نادر موقع ہے اور یہ سبھی کے لئے ہے جو افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن پاکستان کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے۔ گزشتہ 38 برس سے افغانستان میں جاری خلفشار سے پاکستان اس بری طرح سے متاثر ہوا ہے کہ ریاست و سماج اور سیاست و دہشت سبھی بدحال ہو گئیں۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی سے لے کر وہ کونسی تباہی ہے جو مملکتِ خداداد پر نازل نہیں ہوئی۔ بس اب کافی ہو گیا، پرانے کھیل بند کئےجائیں اور افغانوں کو مل بیٹھنے پر راضی کیا جائے۔ ابھی تو عالمی برادری کچھ ہاتھ بٹانے کو تیار ہے جبکہ ریاستی تعمیر نو میں اُس کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ پاکستان اور علاقے کے ممالک یہ بوجھ اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ ہم افغانستان کو اپنا پشتی قلعہ بنا سکنے کی پوزیشن میں ہیں۔ قلب ایشیا کانفرنس میں جو فیصلے کیے گئے، بہتر ہو گا کہ تمام علاقائی ملک ایک متفقہ لا ئحہ عمل طے کریں یہ نہیں کہ افغانستان کی خانہ جنگی میں اپنے پراکسی دھڑے کھڑے کئےجائیں اور پاک بھارت دو طرفہ معاملات کے حساب چکانے کے لئے اُنھیں استعمال کیا جائے۔ بھارتی وزیر دفاع کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان علاقائی اور پاک بھارت تعاون کے لئے بھی ایک میدان ثابت ہو سکتا ہے اور ایک دوسرے کے لئے مشکلات کا سامان پیدا کرنے کا ذریعہ بھی۔ آگ سے کھیلنے کا یہ پرانا خون آشام کھیل اب بند ہونا چاہئے۔ وگرنہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان توانائی، نباتات اور تجارت کی شاہراہوں اور پائپ لائنوں کے حسین خواب افغانستان کے جنوبی گروہوں کے جنگی کاروبار کی نذر ہو جائیں گے۔
صدر اوباما نے جو تنبیہ کی ہے اُس پر ناک بھوں چڑھانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ کوئی دھمکی نہیں بردبارانہ مشورہ ہے کہ عدم استحکام اور انتہاپسندی کے خطرے کو بھانپو اور اس کا سدِباب کرو۔ اس میں بھلا کیا برائی ہے۔ دشمن بھی عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دے تو اس پر ناک بھوں کیوں چڑ ھایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی کے بارے میں تو ابھی سنجیدہ اجلاس بھی نہیں ہوا۔ ہر کوئی اپنی اپنی انتہاپسند عقیدہ پرستی اور فرقہ پرستی پر بڑے ہی وثوق اور ایمانداری سے قائم ہے اور اگر مماثلت کوئی ہے تو صرف یہ کہ دوسرا غلط اور قابلِ گردن زدنی۔ اور اسی زہریلے ماحول میں انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی دکانیں چلتی ہیں۔ یہ کاروبار چلتا رہا تو صدر اوباما کی تنبیہ کیوں غلط ثابت ہونے لگی۔ چیلنج یہ ہے کہ اس خدشے کو غلط ثابت کیا جائے نہ کہ انکار۔ وزیراعظم نواز شریف نے یہ کہہ تو دیا ہے کہ ایک ترقی پسند اور جمہوری و لبرل پاکستان چاہیے۔ لیکن کیا اُن کی حکومت اور جماعت بھی اس کے لئے تیار ہے؟ خدشات بہت ہیں اور مواقع بھی بہت، پھر چیلنجوں سے نپٹنا کیا مشکل!
تازہ ترین