• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
77ویں یوم پاکستان کے موقع پر پاکستانی قوم اورافواج پاکستان نے ملی جذبے کے اس دن کے حوالے سے نہ صرف قومی تقریبات کااہتمام کیا بلکہ ہر شہر میں سیاسی سے زیادہ قومی جذبے کااظہار دیکھنےمیں آیا۔ کاش پاکستان میں اداروں کو مضبوط کرنے اور ملک میں معاشی انصاف کی فراہمی کے لئے بھی قومی سطح پر ہماری سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے ہٹ کر قومی سوچ کو فروغ دیں۔ ویسے تواس دفعہ یہ واضح ہو رہا تھا کہ پاک فوج نے ہر سطح پر قومی جذبے کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے جس میں ISPR کی ملی جذبے سے سرشار ایک ڈاکیومنٹری کو خاصا کریڈٹ دیاجاسکتا ہے جس کیلئے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ کاوش سارا سال جاری رہنی چاہئے جس کے لئے انہیں کئی قابل عمل تجاویز اور مشورے دیئے جاسکتے ہیں۔ جس کے ذریعے مختلف مسائل و مشکلات سے دوچار قوم کو مایوسی سے نکال کر امید اورروشنی کی کرن دکھائی جاسکتی ہے۔ جس کی وقت اور حالات کے حوالے سے شدت سے ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ اسلام آباد کے حوالے سے عام تاثر یہی پایا جارہا ہے کہ پاناما کیس کے حوالے سے پاکستان کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازہونے والا ہے۔اس سلسلے میں افواہ ساز فیکٹریوں کے پاس بھی مختلف افواہیں پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کا خام مال بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ لیکن حکمراں جماعت اور حکومت مخالف پارٹیوں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور دیگر کی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی یہ اشارے دے رہی ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے تاریخ ساز اور حیران کن کوئی بڑا فیصلہ آنے ہی والا ہے۔ جو یقیناً کئی سو صفحات پر تو مشتمل ہوگا مگر اس کے تین چار صفحات ایسے ہوں گے جو پاکستان کے ہر قسم کے حالات پر مثبت ترین اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
قوم بھی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان کے اداروں اور خاص کر انصاف کی فراہمی کے اداروں پر ان کا اعتماد اور احترام برقرار رہے۔ چاہے ان کے اقدام اور فیصلے کسی بڑے گھر والوں کو اچھے لگیں یا برے لگیں۔ اس لئے کہ اب یہ وقت اداروں سے کھیلنے یا انہیں دبائو میں لانے کا نہیں بلکہ انہیں مضبوط اور موثر بنانے کا ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے وقار اور عزت میں اضافہ ہوگا اور یہ اچھا تاثر جائے گا کہ پاکستان میں کرپشن یا قومی وسائل میں ہیرپھیر یا لوٹ مار میں حد سے زیادہ طاقت اورہوشیاری زیادہ دیرتک نہیں چل سکتی۔ اداروںکے اچھے فیصلوں سے ملک کی بیلنس شیٹ اچھی نظر آتی ہے خاص کر پاکستان جیسے ملک میں، جہاں سوائے چین اور ترکی کے، کئی ممالک کے سفارتکار اورسرمایہ کاروں کو تشویش اور کئی فیصلوں میں حکومتی اداروں کی بیجا مداخلت پر احتجاج کا ذکر اکثر اسلام آباد میں ہوتارہتاہے۔ یہی صورتحال کراچی اور لاہور میں بھی یہ سفارتکار اور سرمایہ کار بیان کرتے رہتے ہیں۔
اگر یہ سب چیزیں کسی بڑے فیصلے میں ایڈریس ہوجاتی ہیں تو اس سے ملک میں سرمایہ کاری اور تجارت کے ساتھ ساتھ ذاتی بزنس کے حوالے سے کئی قسم کی گائیڈ لائن مل سکتی ہے۔ اللہ کرے 23مارچ کے بعد آنے والے ایک دو ہفتے میں بھی قوم کو اچھی خبریں ملیں لیکن اس کے بعد سیاسی طور پر برداشت اور رواداری کے جذبے کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانےکی روایات کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ اس کے لئے قومی سطح پر یکجہتی، افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کو عزت دینے کی روایات کو فروغ دیناہوگا۔ جس کے لئے قومی سطح پر میڈیا کو مثبت کردار ادا کرکے ملک میں ہرشعبہ زندگی میں اچھے دنوں کے آغاز میں بھرپور مدد کرنا ہوگی۔

.
تازہ ترین