• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے حالیہ صوبائی انتخابات میں ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں حیران کن کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اگرچہ اسے پنجاب سمیت دیگر تین ریاستوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جہاں بی جے پی ، اکالی دل کے ساتھ گزشتہ دس سالوں سے برسرِ اقتدار تھی ۔ لیکن دائیں بازو کی کٹر مذہبی جماعت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، بھارت میں بڑھتے ہوئے انتہا پسند انہ نظریات اور اقلیتوں یعنی مسلمانوں ، عیسائیوں اور سکھوں کے خلاف پُر تشدّد واقعات میں اضافے کی وجہ سے بی جے پی ، بہار میں صوبائی الیکشن بُری طرح ہار گئی تھی۔ جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ یو پی میں بھی اس قسم کے نتائج سے دوچار ہوگی۔ اس پرمستزاد مودی حکومت کی طرف سے بغیر کسی معقول پلاننگ کے ، اچانک نوٹ بندی کے فیصلے سے جس طرح عوام ناراض اور پریشان تھے یہ توقع کی جار ہی تھی کہ ’’ مودی لہر‘‘ پوری طرح دم توڑ دے گی اور بی جے پی جس تیزی کے ساتھ 2014ء کے عام انتخابات میں منظر عام پر ابھری تھی اسی تیزی کے ساتھ نیچے گر جائے گی۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر بی جے پی نے اپنی حکمت ِ عملی تبدیل کرتے ہوئے وزیرِ اعظم مودی کے انتخابی جلسوں کی تعداد بہت کم کردی تھی کیونکہ بہار کی انتخابی مہم میں مودی نے تقریباََ ساٹھ جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کیا تھا۔ لیکن جب انتخابی نتائج سامنے آئے تو نتیش کمار اور لالوپرشاد یادو کے اتحاد نے بی جے پی کو بُری طرح شکست سے دوچار کردیا تھا۔ جس سے پر جوش مقرّر اور پرُ اعتماد سیاستدان کے روپ میں ابھرنے والے نریندرمودی کی سیاسی ساکھ کو کافی دھچکا لگا تھا۔ یوپی کی زیادہ تر انتخابی مہم بی جے پی کے صدر امّت شاہ اور نو منتخب وزیرِ اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے چلائی اور حیرت انگیز کامیابی حاصل کرلی ۔ یوپی کی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے اپنی جارحانہ پالیسی کو تیز تر کرتے ہوئے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس کا بے دریغ ڈھنڈورا پیٹا۔ اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ صرف مودی ہی وہ واحد بھارتی سیاستدان ہے جو پاکستان کو ’’ سبق ‘‘ سکھا سکتا ہے۔ حالانکہ نہ صرف پاکستان نے بی جے پی حکومت کے اس دعوے کو سراسر جھوٹ قرار دیکر چیلنج کیا بلکہ حزبِ مخالف کی جماعتیں بھی مودی کے اس دعوے کو جھٹلاتی رہیں اور یہ مطالبہ کرتی ہیںکہ پاکستان کے خلاف اس سرجیکل اسٹرائیک کا کوئی ثبوت پیش کیا جائے۔ لیکن بی جے پی حکومت نے ثبوت پیش کرنے کی بجائے اُن نام نہاد فوجیوں کو یومِ جمہوریہ پر میڈل دینے کا ڈرامہ رچا دیا جنہوں نے بقول ان کے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک میں حصہ لیا تھا۔ بی جے پی نے پاکستان کے خلاف نفرت بھرا یہ ڈرامہ دوسری انتخابی ریاستوں میں بھی دہرایا، خاص طور پر پنجاب میں پھیلتی ہوئی نشے کی وبا کا سارا الزام پاکستان پر لگا دیا لیکن یہاں عوام نے بی جے پی کے اس پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کانگریس کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروا دیا جبکہ عام آدمی (آپ) دوسرے نمبر پر رہی۔ اور بی جے پی ، اکالی دل گٹھ بندھن کو بڑی شکست ہوئی۔
یوپی میں جہاں سماج وادی پارٹی کے اندرونی انتشار نے بی جے پی کی فتح میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہاں بی جے پی کے ہندو تو ا کے نعرے نے بھی خوب کام دکھایا۔ اور بی جے پی مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصّب کو ابھارنے میں کامیاب رہی جو بھارتی یک جہتی اور قومی وحدت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے جس نے بھارتی اقلیتوں یعنی مسلمانوں ، عیسائیوں ، بدھ مت کے ماننے والوں اور سکھوں کو انتہائی خوفزدہ کردیا ہے کیونکہ یوپی کے نو منتخب وزیرِ اعلیٰ آدتیہ ناتھ ایک انتہا پسند یوگی ہیں۔ جو یوگیوں کے مخصوص گیروے رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور بھارت کو ’’ مذہبی ریاست‘‘ بنانے کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے برسرِ اقتدار آتے ہی تمام مذبح خانے بند کرادئیے اور ہندوانہ قوانین کے نفاذ کاآغاز کردیا ہے ۔ جس سے اقلیتیں سہم کر رہ گئی ہیں۔ خاص طور پر مسلمان علما نے ان اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے بھارت کے بنیادی نظریے مذہبی رواداری یعنی سیکولرازم کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ویسے تمام کٹر مذہبی سیاسی لیڈر چاہے ان کا تعلّق کسی بھی مذہب سے ہو نہ سمجھ آنے والی دوغلی پالیسیوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسے مسلم مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان بھارت میں تو سیکولرازم کے حامی ہیں اور اسے عین اسلامی پالیسی قرار دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں وہ سیکولرازم کے سب سے بڑے مخالف ہیں اور اسے غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ بھارت جسکی آبادی تقریباََ ایک ارب اور تیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں مسلمانوں سمیت مختلف اقلیتوں کی شرح 25سے تیس فیصد تک ہے ، کسی طرح بھی مذہبی اکثریت کے انتہا پسندانہ نظریات کے تسلّط میں متحد نہیں رہ سکتا۔ سیاست اور مذہبی انتہا پسندی کا ملاپ ہمیشہ انسانی تاریخ کا المیہ رہا ہے۔ جس نے قوموں کو انتشار اور مذہبی خلفشار کے سِوا کچھ نہیں دیا۔ 1947میں پاکستان کا بننا ، مسلمان اقلیت کے اس خوف کا مظہر تھا۔ جو انہیں ہندو اکثریت کے مذہبی اور معاشی غلبے کی وجہ سے لاحق تھا۔ گویا یہ آر ایس ایس کی شدھّی اور سنگھٹن جیسی مذہبی منافرت کی پالیسیوں کے خلاف ایک ردّ ِ عمل تھا۔تقسیم درتقسیم کا یہ عمل تیسری مرتبہ بھارت کی سرزمین پر بی جے پی کی فتح کی شکل میں پھر دستک دے رہا ہے۔ کیونکہ قوموں کے تحفظ کی واحد ڈھال سیکولرازم یعنی مذہبی رواداری جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے تو اس قوم کو مزید تقسیم ہونے سے بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

.
تازہ ترین