• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذکر 19دسمبر 2015ءکے ایک اجلاس کا، جس کی خبر 20دسمبر 2015ءکے قومی اخبارات میں شائع ہوئی۔ بتایاگیا شہر کراچی میں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ صدر الدین شاہ راشدی کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس نے پاکستان پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کیخلاف ’’گرینڈالائنس‘‘ بنا کر سندھی عوام کو اس سے ’’نجات‘‘ دلانی ہے۔گرینڈ الائنس کے حساس پروگرام کا اندازہ پہلے دن کی شائع شدہ خبرمیں موجود ان اعلانات سے لگایا جاسکتا ہے جن کے مطابق 9جنوری 2016 ءسے پی پی حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جائے گی۔ سندھ اسمبلی کا گھیرائو ہو گا۔ ظالموں اور استحصالیوں کی اس حکمرانی کے خلاف گرینڈ الائنس ایک نئی تاریخ رقم کردے گا۔
لیکن آپ کو پہلے ایسے متوقع تاریخی انقلاب کے ’’عظیم داعیوں‘‘ اور ’’پیامبروں‘‘ کے اسمائےگرامی کامعلوم ہونا چاہئے۔ سندھی عوام کے اندھے اور سیاہ مقدرات کی کایا پلٹ کردینے والی، برصغیر پاک و ہند کی ان ’’یگانہ روزگار ہستیوں‘‘ میں پیرپگارا صدر الدین راشدی کے علاوہ ’’سود و زیاں سے بے نیاز‘‘ یہ حضرات والاتبار شامل ہیں: (1) ممتاز بھٹو (2) سید غوث علی شاہ (3) لیاقت جتوئی (4) غلام مرتضیٰ جتوئی (5) ڈاکٹر ارباب غلام رحیم اور (6) ڈاکٹر ذوالفقار مرزا۔ متوقع عوامی انقلاب کی گندھی ہوئی اس مٹی کے باقیماندہ اجزائے ترکیبی کا ذکر بعد میں کریں گے پہلے امید کے ان مشعل برداروں کا تذکرہ ناگزیر ہے جن کے نزدیک یہ ’’الائنس‘‘ تو ’’سندھ میں چلی تازہ ہوا‘‘کا وہ لقمہ ٔ جاں فزا ہے جس سے سندھ کے ریگزاروں میں تڑپتے اور بلکتے عوام کی اندھیری شب ہمیشہ کیلئے اپنے اختتام کو پہنچ کر ایک حیات افروز سحر کے طلوع کاگجر بجائے گا۔
چنانچہ اب ان حضرات کو امید ہی نہیں پورا ایقان ہے کہ (1)سندھی عوام کے تمام غصب شدہ بنیادی حقوق بحال ہو جائینگے بلکہ چھین لئے جائیں گے (3)خوشامدی درباری کارکنوں کو خلاف ِمیرٹ اور کنبہ پروری کی بنیاد پر نوازنے کی بے انصافی قصہ ٔ پارینہ ہوگی (4) چھوٹی چھوٹی نوکریوں کی سیل کے بازار بند ہو جائیں گے (۴) موجودہ سندھ حکومت کے خلاف ’’گرینڈ الائنس‘‘ کے قیام سے عشروں سے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کا قیدی سندھ ’’یوم آزادی‘‘ منائے گا(5) غریبوں کو پانی بیچنے والی بیڈ گورننس محض ماضی کہلائے گی۔ (6)غیرسیاسی اوراہل و مستعد پولیس بحال ہوگی، بلدیاتی ادارے مکمل انتظامی اختیارات انجوائے کریں گے (7) تھر میں 32بچوں کی موت کی ٹریجڈی کا بھی یہ بس آخری دردناک قصہ ہے۔ اب اس ’’گرینڈالائنس‘‘ کے بعد ایسے تمام منحوس چراغ ہمیشہ کیلئے بجھا دیئےجائیں گے (8) تھانہ، عدالت، کچہری کلچر اور جاگیردارانہ ظالمانہ نظام کا سر کچل دیا جائیگا پھر یہ سر کبھی بھی اس ظالمانہ نظام کے کندھوں پر نہیں سج سکے گا۔
آپ مزید آگے بڑھیں آپ کو صرف پتہ ہی نہیں چلے گا بلکہ ’’ذلتوں کے مارے سندھیوں‘‘ کو عزت کے رتھ پر سوار کروانے والوں کے مزید اسمائے گرامی آپ پر حیرت کے دَر وا کرسکتے ہیں۔ یہ ہیں قومی عوامی تحریک کے ایاز لطیف پلیجو اورسندھ یونائیٹڈ پارٹی کے جلال محمود شاہ! مزید معزز حضرات کی شمولیت بھی ہوسکتی ہے، آخر کو ’’ذلتوںکے مارے سندھیوں‘‘ کو انہوں نے انسانی حقوق کی عظمت اور عزت کے رتھ پر سوار کرانے کا لازوال کارنامہ سرانجام دینا ہے، پھربھی تجزیہ نگاروں اورمیرے جیسے وہمیوں نے ایسے ’’انسانیت نواز‘‘ افراداور ان کی جماعتوں کو سوالات کے ایک پرہجوم کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔
مجھ سمیت ان سیاسی و صحافتی مبصروں کے خیال کو سب سے پہلے اس گرینڈ الائنس کی ٹائمنگ خبردار کر رہی ہے۔ آخراسی وقت ان حضرات پر کون سی بجلی گری جس نے انہیں ’’ذلتوں کے مارے سندھیوں‘‘ کو ہر قیمت پر پی پی سے چھٹکارا دلانے کیلئے اتنی ’’سردی‘‘ کے باوجود اپنے کارکنوں کو دیوانہ وار جدوجہد کیلئے میدان میں اتارنے کافیصلہ کرلیا۔ واضح رہے ’’سردی ‘‘اور ’’گرمی‘‘ دونوں میں ازخود یہ صرف ’’قیادت‘‘ کرتے اور دونوں موسموں کی ہر سختی سے پوری طرح محفوظ رہتے ہیں۔ ٹائمنگ سے ہی جڑے دوسرے سوال کا تعلق صوبے کے سیاسی نقشے سے ہے، پورے صوبہ سندھ میں، غالباً سانگھڑ کو چھوڑ کر، بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ایسی ہی کامیابی حاصل کی جیسی ’’ن‘‘ لیگ نے پنجاب میں، گرینڈ الائنس کی بڑی یا چھوٹی جماعتیں اس معاملے میں ناقابل ذکر قرار دی جاسکتی ہیں، بلدیاتی انتخابات کے پس منظر میں آئندہ متوقع قومی انتخابات کے امکانات کا جائزہ لینا بنتا ہے، ان انتخابات میں ابھی 2½ برس باقی ہیں، تو بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو صوبے کے عوام کا بہت ہی بھاری اکثریت سے جتانا ان امکانات کا دروازہ کھولتا ہے جن میں سے پی پی ا پنے مستقبل کا سیاسی نقشہ (کم از کم سندھ کی حد تک) دیکھنے کا حق رکھتی ہے، پھراس ’’گرینڈالائنس‘‘ کو اس وقت ’’انقلاب‘‘ کی گردن پر ایڑی رکھنے کی واقعی کون سی ’’بجلی گری‘‘ جس نے ان کے خرمن جانبانی کو راکھ کر ڈالایا وہ راکھ ہونے والا ہے، ان جماعتوں اور حضرات نے ایمرجنسی میں اکٹھے ہو کرایسے ’’گرینڈ الائنس‘‘ کا مژدہ سنایا جس کا ابھی تک نہ تو کوئی باضابطہ نام رکھا جاسکا ہے، نہ اصول و ضوابط کی کوئی فہرست دی گئی ہے اور نہ ہی باقاعدہ طور پر اس میں شامل جماعتوں کے نام یا تعداد بتائی جاسکی ہے!گرینڈ الائنس کے تناظر میں ابھر ےسوالات کے ہجوم کو لئے آگے چلتے ہیں۔ ایک 16رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے الائنس کے قواعد و ضوابط، مطلب ’’وغیرہ وغیرہ‘‘، طے کرنا تھا ۔ادھر اسمبلی کے گھیرائو کی حتمی تاریخ کو گزرے ہفتہ سے زیادہ ہونے لگا ہے، بیچارے قواعد و ضوابط تو ابھی لگتا ہے پالنے میں اکڑیاں لے رہے ہوں گے جبکہ اتحاد کے اس اجلاس میں شریک دو جماعتوں تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شرکا کا کہنا تھا ’’ہم اپنی مرکزی قیادت سے پوچھ کر اس ’’امتحانی پرچے‘‘ میں بیٹھیںگے‘‘آپ دیکھتے جائیے گا سوالات کےاس ہجوم سے سندھی عوام کےاس مجوزہ ’’نجات دہندہ‘‘ گرینڈ الائنس کا کیسا ’’عبرتناک، اندوہناک، افسوسناک، خبرناک، تشویشناک، ایجنٹ ناک، نفس ناک اورراکھ ناک‘‘ انجام کا ’’حیرتناک وہولناک‘‘ خاکہ ابھرتا ہے!
اور تو اور اس میں عظیم تر ’’سیاسی مجاہد‘‘ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا بھی شریک ہوئے۔ بیگم جن کی پاکستان پیپلزپارٹی کے صدقے قومی اسمبلی کی اسپیکر منتخب کی گئی تھیں خود ڈاکٹر صاحب بعد ازاں ان کے صاحبزادے نے بھاری بھرکم وزارتوں کی آن بان کے جھولوں میں انت کے جھولے لئے۔ یہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اپنے علاقے بدین کے حلقوں سے بلدیاتی انتخابات میں فتح یاب رہے، دونوں میاں بیوی کے بیانات سے پاکستان کے جغرافیہ پڑھنے والوں کو پتہ چلا ’’بدین‘‘ دراصل سارے پاکستان کا ’’نک نیم‘‘ ہے اور ’’جنہوں‘‘ نے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے ہاتھوں یہ ’’کارنامہ‘‘ کروایا ہے، انہوں نے دراصل آصف علی زرداری کو پیپلزپارٹی کے’’کٹ ٹو سائز‘‘ کرنے کی ’’حد‘‘ بتائی ہے یعنی پورا سندھ بھی پی پی اور زرداری کیلئے ’’بدین‘‘بنایا جاسکتا ہے۔ ’’انقلابی‘‘ ذوالفقار مرزا سیاسی کٹھالی سے کس شکل میں سامنے آتے ہیں، آپ قارئین سمیت خاکسار کی بھی زندگی ہو بہت جلد شاہ لطیف بھٹائی ؒ کی دھرتی کے اس باسی کو ہم سب ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار‘‘ کا مصرعہ گنگناتے سنیں گے، یہاں پر ایک اور جملہ معترضہ ’’انشا اللہ بہت جلد شاہ محمودقریشی کے سیاسی چمٹے کا آئٹم سانگ بھی یہی ہوگا‘‘ ..... اور وہ ’’بھائی سرور‘‘ چلیں، رہنے دیں!
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، آپ سب کو یاد ہوگا، انہوں نے بھائی الطاف اور پھر آصف علی زرداری جیسے ’’قوم دشمن‘‘ لیڈروں کے خلاف جہاد کے لئےسر پہ کفن باندھا تھا۔ پریس کانفرنسوں میں اپنے غلغلے اور طنطنے سے بیچارے رپورٹروں کو ایک طرح سے سکتے میں مبتلا کردیا ، مجھے یاد پڑتا ہے یہ ’’کفن‘‘ انہوں نےایک بار سے زائد بار ’’باندھا‘‘ ماضی قریب میں بھی اس کا مشاہدہ ہوا لیکن ’’جہاد‘‘ اور ’’کفن‘‘ دونوں بالآخر اس گہرے نفس پرستانہ غارمیں چلے گئے جہاں انہوں نے’’جانا‘‘ تھا۔ یہ غار ان لوگوں کا ’’اصل گھر‘‘ ہوتے ہیں جو اللہ کی مخلوق کے غم گسار اور دم ساز بن کر ان کے مظلوم کندھوں کو اپنے ظالم ارادوں کا سہارا بناتے، انہیں رولتے اور خوار کرتے ہیں۔ جنہیں پہلے ہی زندگی نے اپنے دبائو تلے سسک سسک کر چلنے کا خوگر بنا دیا ہوتاہے!
سندھ کے ان افراد کا یہ ’’گرینڈ الائنس‘‘ ان کی اپنی ذاتوں کے بحرانوں کا واویلا، دنیاوی حکمرانی کے لعب اور چودھراہٹوں میں کمی یا چودھراہٹوں سے محرومی کا بے برکت نوحہ ہے۔ اس کا اے اصحاب پاکستان! سندھ کے عوام سے نہ کبھی کوئی رشتہ و تعلق تھا نہ ہے، یہ ضرورت سے کہیں زیادہ ’’بھرے پیٹوں‘‘ کی سیاسی آوارگیاں ہیں!
تازہ ترین