• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی بیماری کی تشخیص کی صورت میں ڈاکٹر مرض کے علاج کے لئے مریض کو دوا تجویز کرتا ہے جس میں بعض اوقات انتہائی ناگوار بو اور کڑوے کسیلے ذائقہ والی ’’کڑوی گولی‘‘ بھی شامل ہوتی ہے، بعض مرتبہ مریض اس کو نگلنے سے صاف انکار کر دیتا ہے تو بعض مرتبہ بدذائقہ ہونے کےسبب اگل دیتا ہے، لیکن نامساعد حالات کو بھانپتے ہوئے اس کو نگلنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اس پراسیس میں ڈاکٹر کی تشخیص اور مریض کو اپنی بیماری کے بارے میں مکمل آگاہی اور اس سے چھٹکارے کا مصم ارادہ لازم ہوتا ہے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے مسئلے کے حل میں سنجیدہ رہے اور بالآخر اس سے چھٹکارا پا لے۔ یہ معاملہ سادہ نوعیت ہونے کےسبب شاید ایک عام شخص یا نامعلوم مریض پر صادق تو آتاہے لیکن انہی کےسادہ لوح عام افراد کے قیمتی ووٹوں سے منتخب کردہ طبقے پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، اگر ہوتا بھی ہے تو کسی ’’خاص‘‘ دبائو، ذاتی، گروہی یا سیاسی مقاصد کے تحت باامرمجبوری ہوتا ہے۔
9سالہ ڈکٹیٹر شپ کے بعد ملک میں عوام، سول سوسائٹی، وکلا اور میڈیا کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ جمہوریت کی بحالی کی صورت نکلا، 2008میں عام انتخابات کے بعد جمہوری دور کا آغاز پیپلز پارٹی نےکیا اور جیسے تیسے اقتدار کے پانچ سال مکمل کئے، اس دوران ڈکٹیٹر کے ’’سیاہ‘‘ کارناموں و قوانین کو ’’سفید‘‘ کیا گیا، تاریخی 18ویں آئینی ترمیم سمیت قانون سازی کے اقدامات کیے گئے لیکن اقتدار عوام کو منتقل کرنے اور مہنگائی، بیروزگاری، غربت، بے امنی کے خاتمے جیسے اہم مسائل حل نہ ہو سکے، 2013میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آگئی، گزشتہ پانچ سال والی جذباتی تقاریر اور فلک شگاف نعرے اور آسمان چیرتے دعوے ہی عوام کا مقدر ٹھہرے، یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاستدان ہر دور میں زیر عتاب بھی رہے اور قید و بند کی صعوبتوں کو بھی برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اس امر سے انکار بھی ممکن نہیں کہ جب بھی اقتدار ملا انہیں عوام سے زیادہ اپنے اقتدار کی مضبوطی اور خود کو بہتر سے بہترین کی خواہش نے مصروف و پریشان رکھا ہے۔ حقائق کا ادراک اور سامنا کرنے کی بجائے جمہوریت کے نام پر مجبوری کا رونا رویا جاتا ہے، عوام کو مشکل حالات و صورتحال کو برداشت کرنےکا درس دیا جاتا ہے، بلاشبہ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی ہے لیکن کیا محض قانون سازی کا کام قوم کی امنگوں پر پورا اترنے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لئے کافی ہے؟ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں جوابدہی کا عمل کون شروع کرے گا؟ قوم کی نمائندگی کا بوجھ اتارنے کے لئے ان کی زندگیوں کو سنوارنے کا کام کون کرے گا؟ سیاسی رہنما اپنے کردار اور رویوں کو سچ کے پرت میں تول کر کب عوامی و جمہوری بنائیں گے؟ حقیقت احوال وہی ہے جو ایک دہائی پہلے تھی، آج بھی ان دیکھے اور اپنے جیسے دشمن کا سامنا، ملک و قوم کو اندر اور باہر سے دہشت گردوں سے خطرات بدستور لاحق ہیں،60 ہزار سے زائد شہری، قانون کا نفاذ کرنے والے جوان و افسر اور ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد اپنی قیمتی جانیں قربان کر چکے، لیکن قوم و ملک کی بقا کے اہم ترین معاملے پر بھی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ بیان بازی کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور مشکل سفر طے کرنے اور منزل کے حصول میں کامیابی کی نوید سنا دی جاتی ہے، عفریت مسلسل سے جان چھڑانے کی سنجیدہ کوششیں تاحال خواب و خیال ہیں۔ 16دسمبر 2014کے سانحے کے بعد دہشت گردوں کو جلد سزائیں سنانے کے لئے مشکل فیصلہ کے بعد دو برس خواب غفلت اور محض کاغذی کارروائیوں میں گزارے اور پھر اسی مشکل نکتے پر آکھڑے ہوئے جہاں دوسال کے لئے ’’کڑوی گولی‘‘ پھر نگلنا مجبوری قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام کا سادہ سا سوال ہے کہ آخر کیوں سچ نہیں بولا جاتا؟ دو سال پہلے ایوان بالا میں منظر دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور کامریڈ رضا ربانی نے غیر جمہوری فیصلے پر آنسو بہائے، فیصلے کو مشکل اور ضمیر کی آواز کے خلاف قرار دیا لیکن ’’ووٹ‘‘ دے دیا۔ آج دو سال بعد قوم کی آنکھوں نے پھر منظر دیکھا کہ جمہوریت کے داعی رضا ربانی فوجی عدالتوں میں توسیع کی قانون سازی کے دوران اس کی مخالفت بھی کرتے رہے اور ایوان کی کارروائی بھی چلاتے رہے، اس مرتبہ تو ان پر پارٹی کا دبائو یا بوجھ بھی نہیں تھا وہ اپنے دو سال پہلے ادا کردہ الفاظ کو حرمت کے عظیم مقام پر بھی پہنچا سکتے تھے لیکن ہوا کیا یہ سب نے دیکھ لیا؟ یہی نہیں ان کی جماعت بھی ’’اصولی‘‘ طور پر سخت مخالفت کے باوجود ووٹ دینے پر ’’مجبور‘‘ ہوئی۔ بڑےحکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان محض مذہب اور فرقہ واریت کے الفاظ کو بہانہ بناکر ’’عزم صمیم‘‘ کے ساتھ فوجی عدالتوں کی توسیع کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہو گئے لیکن اس حقیقت کو عوام کے سامنے بتانا گوارا نہیں کیا کہ کیا ملک میں دہشت گردی مذہب اور فرقہ واریت کے نام غلط استعمال کر کے نہیں ہو رہی؟ ایک اور اہم اتحادی محمود خان اچکزئی وفاق اور بڑے (رقبے کے لحاظ سے) اور اہم صوبے بلوچستان میں گورنری سے لے کر ہرسطح پر حکمرانی میں شانہ بشانہ ہیں لیکن فوجی عدالتوں کے معاملے پر اقتدار تو نہیں چھوڑتے محض مخالفت کرکے اس کو ’’اصول پسندی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، عوام اس امر پر بھی حیرت کناں ہیں کہ حکومت کے اتحادی پھر متبادل نظام بھی تو نہیں بناتے؟ انصاف کی داعی اور نیا پاکستان بنانے کی دھن میں مصروف تحریک انصاف کے کردار پر بھی ان کے ووٹر انگشت بدنداں ہیں کہ نظام کا حصہ بھی رہنا چاہتی ہے، فوجی عدالتوں کو غلط قرار دیتی ہے لیکن مجبوری میں اس کے حق میں ووٹ بھی دیتی ہے؟ کیا بس اس کی یہ ذمہ داری ہے اور جماعت کے سربراہ عمران خان اس ’’نازک‘‘ معاملے پر بھی پارلیمنٹ کو اپنی موجودگی کےقابل نہیں سمجھتے۔ عوام کی نظر میں سب سے بڑا کمال تو جناب قائد ایوان اور ملک کے سربراہ جناب وزیراعظم صاحب کا ہے جو محض جمہوری نظام کی خاطر ’’معاہداتی جلا وطنی‘‘ بھی کاٹ چکے ہیں اور اب بھی اقتدار نہیں محض ’’آئین و جمہوریت‘‘ کی بالا دستی و سر بلندی کے لئے کسی بھی راست ’’اقدام‘‘ سے احتراز نہیں کرتے، کے پاس دو دو تین ماہ قومی اسمبلی جانے کا وقت نہیں ہوتا اور بڑی بات یہ ہے کہ چار سال کے دوران محض 5مرتبہ اور اس مرتبہ 23ماہ کے بعد ایوان بالا کے دورہ پر آئے۔ عوام کے لئے یہ سوال بھی سوہان روح ہے کہ جب آپ سب مجبوری کا اظہار کرنے کے باوجود کوئی عہدہ یا کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں تو پھر فوجی عدالتوں پر اتنا شور و غوغا کیوں؟ دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرنے والوں، لڑ کر مرنے والوں اور ان کے گرفتار کردہ بدترین و سفاک دہشت گردوں کو اپنے مضبوط عدالتی نظام سے سزائیں کیوں نہیں دلوا سکتے تو دوغلے پن کی بجائے اپنی ناکامی چھپانے کی خاطر ہی سہی فوری سزائیں دینے کے نظام کو کھلے دل سےتسلیم کیوں نہیں کرتے؟
قوم کو یقین بھی ہے اور انتظار بھی کہ جس دن ضمیر غالب آئے گا اور غلط کام کو غلط قرار دے کر ترک نہیں کر دیا جائے گا، اپنی خامیوں کو تسلیم کر کے انہیں جسٹی فائی نہیں کیا جائے گا، محض اصول، نظریے اور حقیقی سوچ کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے، زمینی حقائق کو تسلیم کر کے مسائل کو بلاخوف وخطر حل کرنے کی صلاحیت اور عقل سلیم کا مظاہرہ کیا جائے گا، پس پھر کسی کڑوی گولی کو نہیں نگلنا پڑے گا۔

.
تازہ ترین