• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23؍مارچ 2017ءپاکستان کے تمام قومی اخبارات میں سابق صدر پاکستان اور 4پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری کا یہ اعلان سامنے آیا۔ ’’جس وقت کا انتظار تھا وہ آ گیا، انتخابی مہم لاہور سے چلائوں گا، پنجاب میں آکر بیٹھ گیا۔ بتائوں گا الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے۔ گزشتہ الیکشن ہمیں لڑنے نہیں دیا گیا لیکن آنے والا الیکشن بھرپور انداز سے لڑیں گے!‘‘
22؍مارچ 2017ء کی شام قومی الیکٹرانک میڈیا کی اسکرینیں اس اعلان کی یلغار سے پہلے ہی مطلع کرچکی تھیں۔ 22؍ مارچ 2017ء کو قومی سیاست کے میدان میں اپنے پروگرام کا باعزم اظہار کرنے کے بعد، آصف علی زرداری نے اس کا طاقتور تسلسل برقرار رکھا، آج 28؍ مارچ 2017ء کو جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں، 4پی پی کے چیئرمین اس قومی سیاسی بیرومیٹر کی پیش قدمی اسی نوعیت اور مقدار کے ساتھ جاری ہے۔
23؍مارچ 2017ء سے لے کر آج 28؍ مارچ 2017ء تک آپ کا ثبوت ریکارڈ پر لا سکتے ہیں، جیسا کہ24؍ مارچ:’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج بے نظیر بھٹو اور کارکنوں کو شہید کرنے والوں سے لڑنے جائے اور ہم انہیں روکیں، اسی تناظر میں پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں میں توسیع کیلئے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حسین حقانی کو کسی کو ویزا دینے کا اختیار نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے ایسی بات کی ہے۔ حسین حقانی کی کتاب اور پاکستان کے خلاف باتوں سے اتفاق نہیں کرتا۔ حسین حقانی کو سفیر بنا کر ان سے جو کام لینا تھا انہوں نے وہ کام کیا، ان سے میری کافی دیر سے ملاقات نہیں ہوئی نہ میں ان سے اب ملنا چاہتا ہوں۔ وہ خود کو واشنگٹن میں فلاسفر لالبٹ سمجھتے ہیں۔
ناہید خان اور صفدر عباسی کی پارٹی میں واپسی سے متعلق سوال پر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ناہید اور صفدر کے معاملے میں ایک بات پر ہمارا دل ٹوٹا ہوا ہے، صفدر عباسی نے ایک بہت بڑی بات کہی تھی جو ہمیں اچھی نہیں لگی‘‘۔ جناب سابق صدر کی یہ گفتگو حامد میر کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ’’جس وزیر کے بال خراب نہیں ہوئے اسے وارننگ دے رہا ہوں، ایسا نہ ہو کہ سیف الرحمٰن کی طرح میرے پیروں میں گرنا پڑے‘‘۔
’’موجودہ حکمرانوںمیں صدام حسین جیسا غرور نظر آتا ہے، آزادانہ الیکشن ہو یا کوئی اور ہم نے تسلیم کیا، حکمرانوں میں صدام حسین جیسا غرور نظر آتا ہے اگلا وزیراعظم بلاول ہو گا‘‘۔ بیگم نصرت بھٹو کی سالگرہ پہ خطاب۔
25؍ مارچ:’’سابق چیف جسٹس کو کہتا ہوں شرم کرو، شرم کرو، وہ سیاسی جج صدر بننا چاہتا تھا، آئندہ الیکشن میں ان سے پورا پنجاب لے کر رہیں گے۔ بے نظیر قتل کیس کے سیاسی ایکٹر انجام کو پہنچ گئے۔ حامد سعید کاظمی کو باعزت بری ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کہا کرتی تھیں کہ ان میں نہ جانے کیا چمک ہے کہ ’’اے کدی پھسدے نئیں تے اسی کدے بچدے نئیں‘‘۔ ایک اور موقع پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا:’’جناں لُچا اوناں اُچا‘‘۔
27؍ مارچ:’’پنجاب میں گزشتہ انتخابات آر اوز کی وجہ سے ہارے۔ پیپلز پارٹی بلاول اور آپ کی بیٹیاں مقابلے کے لئے میدان میں اتریں گے۔ مخالفین کو لگ پتہ جائے گا، الیکشن لڑنے کے لئے تیار ہیں، اب کوئی ہتھکڑی نہیں، جب بی بی آتی تھیںلاہور بند ہو جاتا تھا، بھٹو دے نعرے وجن گے، پیٹوں سارے بھجن گے، بیرونی قرضے خطرناک حد کو چھو رہے ہیں‘‘۔
28؍ مارچ:’’بلاول کی جوانی، میرا تجربہ، مفاہمت کی سیاست ختم اینٹ کا جواب پتھر، اب جارحانہ اننگز کھیلیں گے، جمہوریت کی خاطر چار سال مصالحت کر کے دیکھ لی، یہ سال مزاحمت کا ہو گا۔ بلاول بھٹو پارٹی کے با اختیار چیئرمین ہیں، وہی لیڈر ہیں اور ہوں گے!‘‘
آصف زرداری قریب قریب آٹھ برس قبل اس مدت سے پہلے کے ماضی، قید و بند سے لے کر بی بی کی شہادت تک کا پُر آشوب، پُر اشک اور پُر درد عہد بھی ذہن میں رکھیں، آپ آصف علی زرداری کی مضبوط شخصیت کو ممکنہ حد تک صحیح جان سکتے ہیں، آپ انہیں زندگی کو، ’’جلد بازی کئے بغیر ہدف پر مرتکز‘‘ کا حیرت انگیز منظر نامہ قرار دے سکتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں ہم ان کی شخصیت کے حوالے سے پاکستان کے مقتدر ترین دانشور اور تجزیہ کار جناب مجیب الرحمٰن شامی کا ایک بیانیہ مستعار لیتے ہیں۔
ملکی تاریخ میں 9؍ مارچ 2010ء کو پہلی بار پاکستان کے ایوان صدر میں اے پی این ایس (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی) کا اجلاس منعقد ہوا۔ وہاں شامی صاحب نے اپنی تقریر میں ’’صدر‘‘ کے قومی مقام، ذاتی شخصیت اور سیاسی کردار کا ذکر کیا۔ یہ تاریخ میں بطور ریکارڈ موجود رہے گا۔ یہ پاکستان کی اخباری برادری کی قانونی گواہی کے طور پر بھی حسب ضرورت اور حسب موقع ہمیشہ پیش کیا جا سکتا ہے، (اس وقت اسی تقاضے پر عمل کیا گیا ہے)۔
شامی صاحب نے اپنے خطاب میں کہا: ’’جناب صدر! آپ سے اتفاق کیا جائے یا اختلاف، آپ پر تنقید کی جائے یا آپ کی تحسین کی جائے یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ آپ رات کے اندھیرے میں شب خون مار کر ایوان صدر پر قابض نہیں ہوئے، آپ دن کے اجالے میں اور ڈنکے کی چوٹ یہاں پہنچے ہیں، اپنے آئینی حلقہ انتخاب کا بھرپور اعتماد حاصل کر کے آئے ہیں، اس ایک بات نے آپ کو وہ حیثیت عطا کر دی ہے جو شب زادوں کے حصے میں کسی طور نہیں آ سکتی۔ وہ آسمان کے تارے توڑ کر لانے کا دعویٰ کریں تو بھی جب شجرہ نسب کا ذکر آئے گا تو انہیں منہ چھپانا پڑے گا، جس طرح سفید اور سیاہ ایک نہیں ہو سکتے اسی طرح منتخب اور غاصب کو ایک ساتھ کھڑا نہیں کیا جا سکتا، ان کا قد ایک پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ‘‘۔۔۔ ’’یہ بات تاریخ میں درج ہو چکی ہے کہ آپ کے خلاف انتخاب میں حصہ لینے والوں نے انتخاب سے پہلے، انتخابی عمل کے دوران اور اس کے فوراً بعد آپ پر کوئی اعتراض داخل نہیں کیا۔ آپ کے مخالفین بھی آپ کو مبارکباد دیتے ہوئے دیکھے گئے‘‘۔
جناب صدر ! ہم اس تاریخی حقیقت سے بھی اچھی طرح آگاہ ہیں کہ آپ کی رگوں میں صوفیاء اور صلحا کا خون دوڑ رہا ہے، آپ کے جد امجد جناب بلاول کی المشربی سے دنیا واقف ہے، انہوں نے روا داری اور محبت کے چراغ روشن کئے۔ اور آٹھ برس قبل جب وہ پانچ برس تک مملکت خدا داد پاکستان کے صدارت کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے، اس کا اختتام یہ نتیجہ تسلیم کرنے پر ہوا جس کے مطابق ’’18فروری 2008ء کے قومی انتخاب کے بعد 9ستمبر 2008کو پاکستان کو مقبول عام منتخب سویلین صدر کے منصب جلیلہ کا حلف اٹھایا۔ پانچ برسوں کے اس دورانیے میں بقول وجاہت مسعود، آصف زرداری کو بدعنوانی کا استعارہ بنا دیا گیا‘‘ لیکن وہ اپنا کام کرتے رہے، آبلہ پائی کے شکوےکا ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائے، نوبت بہ امن جما رسید کہ اس راسخ العقیدہ غیرت مند اور صابر بلوچ کو ’’مرد حر‘‘ کا لقب دے دیا گیاوہ ایوان صدر سے تاریخی وقار اور احترام سے لدے پھندے اپنے گھر پہنچ گئے۔ ’’خدا اپنا کام مکمل کر کے رہتا ہے‘‘
تو یہ آصف علی زرداری ’’جلد بازی کئے بغیر پنجاب پہنچ چکا‘‘ کیا آپ آئندہ کے پنجاب میں اقتدار کی کوئی نئی صدا سن نہیں رہے؟



.
تازہ ترین