• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا‘‘ دراصل آر سی ایک قسم کی انگوٹھی ہوتی تھی، جو پچھلے زمانوں میں خواتین اپنے ہاتھ کے انگوٹھے میں پہنا کرتی تھیں، آر سی میں نگینے کی جگہ ایک چھوٹی سی ڈھکنے دارگول ڈبیا ہوتی تھی جس پر ڈھکن کی جگہ چھوٹا سا گول آئینہ لگا ہوتا تھا، جس کے چاروں اطراف میں خوبصورت نقش و نگار یاچھوٹے چھوٹے نگینے لگے ہوتے تھے، عورتیں اُس چھوٹے سے آئینے میں اپنا سنگھار درست کیا کرتی تھیں۔ اُس ڈبیا میں ’’ مستی ‘‘ نام کا ایک سفوف رکھا جاتا تھا جس کو لگانے سے مسوڑے سیاہ ہو جاتے تھے، عورتوں کا خیال تھا کہ سیاہ مسوڑوں کے درمیان مسکراتے وقت نظر آنے والے سفید چمکتے ہوئے دانت اُن کے حُسن میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ اِس ضرب المثل کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں پہنے ہوئے کنگن کو دیکھنے کے لئے آر سی کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ تو ویسے ہی نظروں کے سامنے ہوتا ہے۔ پاکستان میں جاری’’ سی پیک ‘‘منصوبے پر چائنا کی سرمایہ کاری ساری دُنیا کی نظروں میں ہے، لیکن پاکستان کے حکومتی نمائندے اس سرمایہ کاری کا’’ڈھول‘‘ جس انداز میں بجا رہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اِس سرمایہ کاری کا مقصد کیا ہے اوراِس سے پاکستانی عوام کو مستقبل میں کیا فوائد و نقصانات ہونگے۔ پاکستان میںگزرا ہوا کوئی سا بھی دورِ حکومت لے لیں اُس میں مشترک بات ’’ دُنیا بھر سے لئے گئے قرضے ‘‘ ہی ہے۔ غریب سے غریب ملک بھی اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے پالیسیاں مرتب کرتا ہے جبکہ پاکستان میں ہماری آئندہ نسل یعنی بچے مقروض پیدا ہورہے ہیں۔ پاکستانی حکومتیں جو قرضے آئی ایم ایف یا بڑی طاقتوں سے حاصل کرتی ہیں وہ جاتے کہاں ہیں ؟خیر وہ قرضے جاتے کہاں ہیں یہ تو کسی کو معلوم نہیں ہوگا، ہاں مگر اتنا معلوم ہے کہ وہ قرضے ہماری آنے والی آئندہ نسلیں اُتاریں گی۔ ایران کے مشہور بزرگ شیخ سعدی ؒ نے ایک پودا لگایا وہ روزانہ اُس کی آبیاری اور دیکھ بھال کرتے، کسی منچلے کا اُدھر سے گزر ہوا وہ بولا، شیخ صاحب آپ نوے سال کی عمر میں اِس پودے کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، کب یہ بڑا درخت بنے گا اور کب آپ اِس کی چھاؤںمیں بیٹھیں گے، تب تک آپ زندہ بھی ہونگے ؟ شیخ سعدی ؒ نے جواب دیا کہ میں اِس پودے کی دیکھ بھال اِس لئے نہیں کر رہا کہ میں اِس کی چھاؤں میں بیٹھوں گا، میں اِس کی دیکھ بھال اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کر رہا ہوں تاکہ وہ اِس کی چھاؤں میں بیٹھیں۔ دوسری طرف دیکھیں توہماری حکومتیں بجائے پودا لگانے اور اُس کی آبیاری کرنے کے اپنی آنے والی نسلوں کی چھاؤں کو قرضوں کی دُھوپ میں تبدیل کر رہی ہیں۔ سی پیک منصوبے کے جوش میں ہم نے کئی ملکوں سے جھگڑے مول لینے شروع کر دیئے ہیں، بہت سے ممالک سے درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ مدھم کر لیا ہے یا بالکل ختم۔ سی پیک منصوبے سے ہماری بہت سی سیاسی شخصیات کو مالی فوائد ملیں گے، لیکن اُس سرمایہ کاری کے سود کا بوجھ ہماری آئندہ نسلوں پر ڈالا جائے گا۔ ہم چائنا کی سرمایہ کاری پر اتراتے پھرتے ہیں اِدھر نارتھ اسپین کے صوبے ’’ کان تبریا ‘‘ کی وزارت پبلک ورکس کا سالانہ بجٹ 20 بلین یورو ہے۔ نارتھ اسپین میں پڑھے لکھےا سپینش پاکستان کو امیر ملک تصور کرتے ہیں، اُس کی وجہ یہ ہے کہ دو سال پہلے پاکستان کی اسپین کے ساتھ درآمدات اور برآمدات سالانہ 6سو ملین یورو تھیں لیکن اب یہ بڑھ کر ایک بلین یورو سالانہ ہو گئی ہیں۔ ہمیں پاکستان کو کسی کی کالونی بنانے کی بجائے مغربی ممالک سے بھی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ کوریا نے پاکستان میں موٹر وے بنائی تھی، وہ آج تک اُس سرمایہ کاری کا سود وصول کر رہا ہے اور مزید ایسا کرتا رہے گا۔ حکومتی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں جاری رہنے والی جنگ سے پہلے کے پاکستان کی تصویر مغربی ممالک کو دکھائیں، اِن ممالک کو بتائیں کہ ہمارا کلچر ہم سے چھین لیا گیا ہے، ہم خود مظلوم ہیں، ہمارے ساتھ دہشت گردی کو نتھی نہ کیا جائے کیونکہ ہم تو خود اِس کا شکار ہیں۔ مغربی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو چاہئے کہ وہ مقامی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کو پاکستان کے حوالے سے مثبت تصویر دکھائیں تاکہ وہ بچے پڑھ لکھ کر جب مختلف اداروں میں جائیں تو وہاںجاکربتائیں کہ پاکستان دراصل کیا ہے اور مغربی میڈیا ہمیں کیا بتا رہا ہے۔ مغربی ممالک میں تعینات ہمارے سفیر اور قونصل جنرل پاسپورٹ ضرور بنائیں لیکن مقامی حکومتوں کے ساتھ اقتصادی روابط بھی تیز کریں، کیونکہ جب تک دوسرے ممالک کے ساتھ ثقافتی اور اقتصادی تعلقات بہتر نہیں بنائے جائیں گے تب تک مختلف معاشروںاور اقوام کا ایک دوسرے کو سمجھنا بہت مشکل ہو گا۔ پاکستانی سفارت کاروں کو چاہئے کہ وہ جرمنی، اسپین، اٹلی، ہالینڈ اور دوسرے یورپی ممالک کے ساتھ ائیر پورٹ بنانے، ٹاور کنٹرول، شاہرات، جدید مشینری، کنسٹریکشن مشینری، زراعت، سولر سسٹم اور انرجی کے شعبوں میں تعلقات بڑھائیںاور مغربی ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر راضی کریں، سفارت خانے پاکستانی مصنوعات کی مغربی ممالک میں نمائشیں لگائیں جہاںچنیوٹ کا فرنیچر، قصوری کھُسہ، کاٹن کی مصنوعات، حسن ابدال کا شیشہ، وزیر آباد کا سرجیکل سامان، سیالکوٹ سے کھیلوں کا سامان، فیصل آباد سے بیڈ شیٹ، تولیہ اور ہوزری، دستکاری، سندھی اجرک اور ٹوپیاں رکھی جائیں۔ پاکستان کے وفاقی وزراء اور مغربی ممالک کی اتھارٹیز سرکاری آمد و رفت کے رجحان میں اضافہ کریں۔ ہمیں چائنا سے آگے دیکھنا ہے، اپنے بچوں کو قرضوں سے نجات دلانی ہے، ابھی سی پیک جیسے مزید منصوبے دوسرے ممالک کے ساتھ شروع کرنے ہیں۔ ہمارے حکومتی نمائندے سی پیک کوہی پاکستان کا مستقبل قرار دے رہے ہیںلیکن مستقبل میںاس منصوبے کا قرض کیسے اور کس نے اتارنا ہے، اس سرمایہ کاری کا سود کتنا ہے ؟ یہ نہیں بتایا جا رہا۔



.
تازہ ترین