• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرب عسکری اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل راحیل شریف کی تقرری مختلف حوالوں سے ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے متفرق ردعمل سامنے آتے جارہے ہیں۔ کچھ ممالک کی اِس اتحاد سے دُوری پر مبصرین کو یہ خدشہ بھی ہے کہ یہ اتحاد مسلم دنیا میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں شدّت کا باعث بن سکتا ہے۔ ماضی میں مسلم ممالک کے اتحاد اور آپس کے تعلقات پر نظر ڈالی جائے، تو لگتا ہے کہ فرقہ واریت میں شدت پیدا ہونے کا خدشہ کوئی خاص غلط نہیں ہے۔
اگرچہ حکومت اس تقرری پر اصولی رضا مندی کا اظہار کرچکی ہے، لیکن اس معاملے سے متعلق کچھ حقائق انتہائی اہم ہیں۔ اس اتحاد کے قیام کا اعلان دسمبر2015میں اُس وقت کیا گیا جب سعودی افواج یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھیں۔ اُن خاص دنوں میں سُنایا گیا یہ فیصلہ اپنے طور پر معنی خیز ہوسکتاہے۔ یہ بات اِس خدشے کو بھی تقویت دیتی ہے کہ یہ فیصلہ حوثیوں اور ممکنہ طور پر اُن کے حمایتی ملکوں کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کرنے لئے کیا گیا ہے۔ یہ خدشات اگر جَلد دور نہیں کئے گئے تو جنرل راحیل شریف کی تقرری پاکستان کی سیاسی اور سفارتی ساکھ کو متاثر کرسکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جنرل راحیل شریف کے اقدامات بلاشبہ قابل تحسین ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے تحت قبائلی علاقوں میں برسوں سے موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو بالآخر تباہ کردیا گیا اور لاتعداد دہشت گردمار دئیے گئے۔لیکن ان قبائلی علاقوں میںآپریشن کے دوران ملک کے دیگر حصوں میں فرقہ پرست عناصر کو ایک با رپھر سر اٹھانے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ اِن عناصر کے خلاف بھی کارروائیاں کی جاتی رہیں لیکن کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
سیاسی حلقوں میں یہ معاملہ مختلف زاویوں سے پرکھا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے جنرل راحیل کی تقرری پر حکومت کی رضامندی کو مسترد کردیا ہے ۔ پارٹی کا موقف ہے کہ اِس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کی جائے۔اِس سے قبل ماہِ جنوری میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے حکومت سے وضاحت طلب کی تھی کہ جنرل راحیل کو یہ عہدہ سنبھالنے کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی ہے ۔ سینیٹ کو بتایا گیا تھا کہ ہر فوجی افسر ریٹائر منٹ کے بعداندرون ملک ملازمت کے لئے وزارت دفاع سے این او سی لینے کا پابند ہے ۔ لہذا بات محض حکومت کی رضامندی پر ختم نہیں ہوسکتی ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل راحیل شریف نے این او سی کے لئے حکومت کو باقاعدہ کوئی درخواست دی ہے؟ یااس سلسلے میں سعودی حکومت کی جانب سے کی گئی درخواست سے ہی کام چل جائے گا ! اس تناظر میںپی ٹی آئی کی جانب سے معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا مطالبہ انتہائی جمہوری اور اصولی دکھائی دیتا ہے۔
صورتحال کو بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو اتحاد میںاسلامی ملکوں کی وسیع تر نمائندگی کا معاملہ سب سے اہم ہے۔ میڈیا اس منصوبے کوـ’ 34رکنی اتحاد‘ قرار دے رہا ہے۔ لیکن ایران اور شام سمیت کچھ ممالک ا ب تک اس اتحاد کا حصہ بنتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس لئے جنرل راحیل کا یہ عہدہ ان کے لئے بڑی آزمائش بھی ہے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ عہدے کی پیش کش کے وقت جنرل صاحب نے سعودی حکام کے سامنے تین شرائط رکھی تھیں۔ اِن میں ایران کی اتحاد میں شمولیت کی شرط بھی شامل تھی۔ اگر یہ سچ ہے تویقیناً اِس کے مثبت نتائج جلد سامنے آجائیں گے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ اتحاد نیٹو کی طرز پر کام کرے گا۔ مشرق وسطی ، خلیج اور جنوب مشرقی ایشیا کے مسلم ممالک میں دہشت گردی کے خلاف محاذ آرائی اوردیرپا امن کا قیام اس اتحاد کا بنیادی مینڈیٹ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عرب اور دیگر مسلم ممالک کے اتحا د اور اجتماعی پلیٹ فارم کی تاریخ انتہائی مایوس کن ہے۔ اگرچہ اوآئی سی اور عرب لیگ جیسی تنظیموں کی نوعیت عسکری نہیں ہے،لیکن ان تنظیموں میں عرب ممالک کا اثرو رسوخ ویساہی رہاہے جیسا کہ اس نئے اتحاد میں یقینی طور پر دیکھنے کو ملے گا۔ فرقوں میں بٹی مسلم دنیا کو یکجا رکھنے اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق دلوانے جیسے سنجیدہ معاملات میں ان تنظیموں کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے۔
اوآئی سی، یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن کو مسلم دنیا کا سب سے کامیاب پلیٹ فارم قرار دیا جاتاہے۔ تنظیم کا قیام 1969میں عمل میں آیااور اب رکن ملکوں کی تعداد 57ہے۔ وسیع تر اتحاد اور تجارتی رابطوں کے ذریعے مسلم ممالک کے تعلیمی، اقتصادی اور امن وامان سے متعلق حالات میں بہتری تنظیم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ لیکن تقریبا ً نصف صدی کے اِس عرصے میں، ممبر ممالک میں سے بیشتر اپنی سیاسی ساکھ تک برقرار نہیں رکھ سکے۔ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور بدعنوانی کے مشترکہ نیٹ ورک نے اِن معاشروں کا رہا سہا امن بھی تباہ و برباد کردیاہے۔
گزشتہ سال تنظیم کے تحت منعقدہ وزرائے خارجہ کی نشست میں کچھ ارکان کے درمیان فرقہ پرستی کے الزامات کا زور دار تبادلہ ہوا۔ یہ صورتحال مسلم دنیا میں اشتعال اور اختلافات کا مستقل سبب بنی ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں تنظیم کی زیر نگرانی ایک بڑی نیوز ایجنسی قائم کی گئی۔ لیکن چند طاقتور ارکان کی جانب سے خبر رسانی کے عمل میں شفافیت پر تحفظات کے سبب یہ ادارہ بھی ناکارہ کردیا گیا ۔
عرب لیگ1944میں قائم ہوئی۔ لیکن یہ تنظیم بھی اب فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے، جدید مسلم دنیا میں تقسیم کا سبب بنی ہوئی ہے۔ چند سال پہلے شام کی رکنیت معطل ہونے کے بعد یہ معاملہ مزید شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ یہ تنظیم اِتنے برسوں میں رپورٹ کئے جانے والے تنازعات کے77میں سے صرف چھ مقدمات کا کامیاب حل پیش کرسکی ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ کہ اس اتحاد کے باقاعدہ منظم ہونے سے پہلے ہی ایک طرف جنرل راحیل شریف نے یہ عہدہ بغیر کسی تردّد کے قبول کرلیا تو دوسری طرف حکومت نے ریٹائرڈ جنرل کے اِس فیصلے پر فوراً رضا مندی کا اظہار کردیا۔ کیا یہ سب کچھ حقیقت میں اتنا سادہ اور آسان ہوتاہے؟ مخالفین کہتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کرشمے کے پیچھے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا خلیجی ’تحفہ‘، ہمارے فخریہ ایٹمی پروگرام کے لئے برادر ملک کی امداد، بلا معاوضہ پچاس ہزار بیرل یومیہ پٹرول کا معاملہ اور کوئی نو سال پر محیط برادر ملک کی مہمان نوازی کارفرما ہو۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ ان فیصلوں کے پیچھے کسی کی مجبوری چھپی ہو توکسی کی نوکری!



.
تازہ ترین