• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمی کی آمد آمد کے ساتھ ہی لوڈشیڈنگ کی اذیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ابھی تک تو گرمی کا باقاعد ہ آغاز ہی نہیں ہوا مگر سار ےملک میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت بڑھ گیا ہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور جیسے شہروں میں 6سے8گھنٹے اور دیہاتوں میں پندرہ پندرہ گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ شروع ہوچکی ہے۔ شہریوں کا دم نکالنے کیلئے گرمی کی اذیت ہی کیا کم ہوتی ہے کہ اوپرسے بجلی کی لوڈشیڈنگ موسم کی حدت اور شدت کو ایک جان لیوا عذاب میں بدل دیتی ہے۔ اس ساری اذیت ناک صورتحال میں شہریوں کی بے بسی بڑھانے کیلئے حکمران نہایت دل خوش کن وعدے کرتے ہیں اور تاریخ پر تاریخ دیتے ہیں کہ فلاں سال یا فلاں ماہ تک لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوچکا ہوگامگر کئی برسوں سے نہ وہ سال آیا اور نہ ہی وہ ماہ جس کا حکمران وعدہ کرتے ہیں اور ان کا ہر وعدہ، وعدہ فردا ہی ثابت ہوتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاور جنریشن کمپنیاں 11000 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہیں مگر وہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو 9,700میگاواٹ دے رہی ہیں جبکہ سارے ملک میں بجلی کی طلب 14,800میگاواٹ ہے۔ اسی طرح کراچی کو نکال کر 4000سے لے کر 4500واٹ تک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ماہرین کے مطابق سارے ملک میں بجلی کی طلب بشمول کراچی 17,500میگاواٹ ہے۔ اس ساری صورتحال کو یہ حقیقت اور تشویشناک بنا دیتی ہے کہ سارے ملک میں لوڈشیڈنگ کا 40روز تک نام و نشان مٹانےکی استعداد رکھنےوالا 880,000ٹن فرنس آئل کمپنیوں کے اسٹوروں میں پڑا ہے جسے نہ جانے کیوں استعمال نہیں کیاجارہا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران سابقہ حکومتوں کو الزام دینے کی بجائے حقیقت پسندانہ حکمت عملی اختیار کریں۔ چھوٹے بڑے بشمول کالاباغ ڈیم تعمیر کریں۔ شمسی توانائی، کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ اور پن چکیوں کے ذریعے ،پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرکے ،بجلی کی پیداوار میں اضافہ کریں اور عوام کو لوڈشیڈنگ کی اذیت سے نجات دلائیں اور محض نعروں سےکام نہ چلائیں۔

.
تازہ ترین