• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلسل ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک غائب رہنے کی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری کی عالمی شہرت رکھنے والی عاصمہ جہانگیر کی بیٹی منیزے جہانگیر کی شادی کی بارونق تقریب سے چھٹے روز واپس گھر آیا ہوں، درمیان میں لاہور کارڈیالوجی کا انتہائی نگہداشت کا یونٹ آگیا تھا جہاں میری معمول اور ضرورت سے زیادہ شدید دھڑکن کو معمول پر لانے اور موسم گرما کے آغاز میں موسم سرما کی اچانک عارضی مداخلت کے دوران میرے دونوں پھیپھڑوں کو نمونیا کے اثرات سے نجات دلانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران مجھے ہندوستان اور دنیا کے دیگر ملکوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں گزارے ہوئے لمحات بہت زیادہ یاد آئے اور تقابلی جائزے نے بہت دکھ پہنچایا اور بہت زیادہ ندامت محسوس ہوئی کہ آزادی کے بعد کے ستر سالوں میں ہم پاکستانیوں نے تہذیب و تمدن، ذمہ داری اور فرض شناسی کے مثبت سفر کی بجائے منفی راہوں کا سفر طے کیا ہے اور ہجوم سے قوم بننے کے سفر کو کامیابی سے طے کرنے میں ناکام رہے ہیںمگر قصور اس میں شاید عوام یا لوگوں کا ہی نہیںہےلوگوں اور عوام یا ہجوم پر مسلط کئے گئے نفسانفسی کے ہڑبونگ نظام کا بھی ہوگا جس کو رشوت اور سفارش کی آلائشوں نے تقریباً ناقابل علاج واصلاح بنا دیا ہے۔ دس بستروں پر مشتمل ’’کیئر یونٹ‘‘ میں اپنے قیام کے پانچ دنوں میں میں نے کم از کم چھ سو سے بھی زیادہ تیمارداروں کو دیکھا اور سنا جو ’’کیئر یونٹ‘‘ کو مچھلی منڈی بنائے ہوئے تھے اور دنیاوی امور کے تقریباً تمام مسائل پر پوری شدت سے بحث فرما رہے تھےنرسوں کے علاوہ یونٹ کے ضابطوں کی کاربندی کرنے کا مشورہ دینے والے ملازمین سے جھگڑ رہے تھے میری اس خوش فہمی کو غلط فہمی کی شکل اختیار کرنے میں کچھ دیر نہ لگی کہ پاکستان کے لوگ ہندوستان کے عام لوگوں سے زیادہ مہذب اور ذمہ دار ہیں مگر وہاں کے ہسپتالوں، شفاخانوں اور تعلیمی اداروں کا نظم و ضبط ہمارے ہسپتالوں، شفاخانوں اور تعلیمی اداروں سے بہتر ہے۔ اس سلسلے کی ایک معمولی مثال کچھ یوں ہے کہ چند سال پہلے دہلی کے رام منوہرلوہیا سول ہسپتال میں ایک سکھ نرس نے مجھے رات نو بجے کھانے کو ایک گولی دی تو میں نے پوچھا ’’یہ گولی رات کو سونے کے لئے ہے؟‘‘ نرس نے جواب دیا ’’نہیں صبح جاگنے کے لئے ہے۔‘‘ سوچا جا سکتا ہے کہ سکھ نرس کے جواب میں وہاں کا حفظانِ صحت کا نظام ہی بول رہا ہوگا۔ سیانے بتاتے ہیں کہ کسی معاشرے کے کسی علاقے میں اگر امن و امان بول رہا ہوتا ہے تو ہڑبونگ والے علاقوں میں بدنظمی اور انتظار کا شور شرابہ بھی دکھائی اور سنائی دیتا ہے۔ مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے شاعر فیض احمد فیض کہتے ہیں:دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہےامید اور یقین ناامیدی اور مایوسی پر غالب آسکتا ہےتو ناکامی کی لمبی شاموں کو امید اور یقین کے طویل موسموں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور جو کچھ کیا جا سکتا ہے اس کے کرنے میں کچھ زیادہ تاخیر سے گریز اور پرہیز کرنے کی ضرورت ہے عالمی سطح پر کامیابی حاصل کرنے والے ناکامی کی ان منزلوں سے گزر چکے ہیں تو ہم بھی گزر جائیں گے۔


.
تازہ ترین