• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں طلبا کے ساتھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا۔ نوجوانوں کے ساتھ بات چیت ہمیشہ ایک دلچسپ تجربہ ہوتی ہے ۔ اس سے آپ کو انہیں سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ وہ کس سمت میں سوچ رہے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں ملکی حالات کے حوالے سے کیا سوالات ابھر رہے ہیں۔ وہ کن معاملات میں الجھن کا شکار ہیں۔ ہمارے زمانے میں دائیں اور بائیں بازو کا نظریہ جدو جہد کی بنیاد بنا تھا اور ان دنوں نوجوانوں میں ایک لفظ " تبدیلی" تحریک انصاف کی وجہ سے خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ کبھی بھی ان سے تبادلہ خیال کا موقع ملے تو وہ یہ سوال ضرور اٹھاتے ہیں کہ موجودہ حالات میں تبدیلی کیسے لائی جا سکتی ہے۔ اس پر ان کی مختلف آرا ہیں۔ وہ اس بات پر بھی غیر مطمئن نظر آتے ہیں کہ ان کی رائے پر کوئی ڈائیلاگ جنم نہیں لے رہا اور حد تو یہ ہے کہ ان کے اپنے گھر والے بھی ان کی رائے سے اتفاق کر کے کسی ایسے شخص کو ووٹ دینے کو تیار نہیں جو ان کی تھانہ، کچہری اور پٹوار خانے میں مدد نہ کر سکتا ہو۔
وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ حکمران طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ہر قسم کے قوانین سے ماورا ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کے پاس ان کے مستقبل کے لئے کوئی واضح روڈ میپ موجود نہیں ہے۔ میں ان کے اندر موجود تبدیلی کی خواہش کو محسوس کر سکتا ہوں مگر میرے پاس بھی کوئی مکمل لائحہ عمل نہیں۔ میرے نزدیک تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو آپ کے اندر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بغیر مثبت نتائج ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ نفس کے خلاف جہاد کو افضل ترین قرار دیا گیا ہے۔ آج کل سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے دوسروں پر نکتہ چینی کے عادی بن چکے ہیں۔ہم نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھتے کہ یہ نظام ہم پاکستانیوں پر ہی مشتمل ہے۔ ہم آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت لوگوں کو پھانسی پر چڑھانے کا تو مطالبہ کرتے ہیں لیکن آئین کے آرٹیکل 5 کے تابع ہر شہری کے اس فرض کو بھول جاتے ہیںکہ وہ" ملکی آئین اور قوانین کی پابندی کرے گا " ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ایمانداری سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ملکی قوانین کا احترام کرتے ہیں؟ اگر آپ ایک گھنٹے کے لئے کسی سڑک کنارے کھڑے ہو جائیں اور لوگوں کو دیکھتے رہیں تو آپ کو ان گنت ایسے لوگ ملیں گے جو مختلف ملکی قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہوں گے۔ ٹریفک ، پارکنگ ، صفائی اور تجاوزات کے خلاف قوانین کی دھجیاںروزانہ ہماری سڑکوں پر اڑائی جاتی ہیں۔ٹیکس ، ملاوٹ ، رشوت ستانی اور دیگر کئی اور ایسے قوانین ہیں جن کا اکثریت احترام نہیں کرتی۔ اب حد تو یہ ہے کہ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے بھی مذاق بن گئے ہیں۔ میں نوجوانوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اگر وہ واقعی تبدیلی میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں چھوٹے چھوٹے قوانین کے احترام کو اپنی زندگی کا معمول بنانا ہو گا۔ اپنی ذات سے آغاز کر کے ہی وہ معاشرے میں کسی بہتری کی امید رکھ سکتے ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے ہال میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر باہر نکلنے کے بعد انہوں نے سڑک پر ون ویلنگ کرنی ہے ، ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانی ہیں تو معذرت کے ساتھ ان میں اور ہمارے سیاسی رہنمائوں میں کوئی فرق نہیں، دونوں کے قول و فعل میں تضاد ہے۔
ہمیں اپنے رویو ںکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ اگر ہر شخص روزانہ گھر سے نکلنے سے پہلے یہ فیصلہ کر لے کہ آج وہ ملکی قوانین کا احترام کرے گا، صفائی کا خیال رکھے گا، سڑک پر گاڑی یا موٹرسائیکل جہاز کی طرح نہیں چلائے گا، غلط جگہ پارکنگ نہیں کرے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ محض ان معمولی باتوں سے ایک خوبصورت تبدیلی خود بخود نمودار ہونے لگے گی۔ہم اپنے ملازمین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے کوشش کر سکتے ہیں، ان کے بچوں کو تعلیم دے سکتے ہیں ۔ اپنے محلے اور گلی کی صفائی کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کر سکتے ہیں۔ اگر علا قے کا کو ئی مسئلہ ہے تو متعلقہ ایم این اے یا ایم پی اے کو لکھ کر یاد دہانی کروا سکتے ہیں۔
آج کل کی نوجوان نسل ناکامی سے بہت جلد دل برداشتہ ہوجاتی ہے جبکہ میرا یقین ہے کہ کبھی بھی ایک ناکامی پر اپنی زندگی کا مقصد نہیں چھوڑنا چاہئے ۔زندگی ناکامیوں اور کامیابیوں کا مجموعہ ہے ۔ میں نے اپنی 65سالہ زندگی میں بہت نا کامیاں اور کامیابیاں دیکھیں مگر ہر بار مجھے کامیابی نے لڑنے کی وہ طاقت نہیں دی جو ناکامی سے حاصل ہوئی۔ہمارے دور میںمعلومات تک رسائی مشکل تھی، لائبریری میں مطلوبہ کتاب پڑھنے کے لئے ہمیں کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا تھا۔ آج کا نوجوان ایک کلک پر دنیا بھرکی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور سیاسی،سماجی اور معاشی تبدیلی کی بنیاد کو سمجھ سکتا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ انٹرنیٹ کو کس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں، کیا انٹرنیٹ محض سوشل میڈیا پر فضول بحثوں میں الجھنے اور گالی گلوچ کرنے کا ذریعہ ہے یا لامحدود دستیاب معلومات سے فائدہ اٹھاکر تبدیلی کے عمل کے آغاز کا راستہ۔
یاد رکھیئے کوئی بھی جدو جہد آسان نہیں ہوتی۔ " ایک آدمی ایک ووٹ " جو آج پاکستان میں ایک حق ہے ،60 کی دہائی میں اس کے لئے محض ہینڈ بل تقسیم کرنے پر گرفتا ر کر لیا جاتا تھا۔ اس ملک میں جمہوریت اور آزادی رائے کے لئے قربانی دینے اور جدوجہد کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، بہت سے افراد نے اپنی جوانی اور زندگیاں ہمارے لئے یہ حقوق حاصل کرنے کی جدو جہد میں صرف کر دیں۔ میں آج کے نوجوان کو یہ سبق نہیں پڑھانا چاہتا کہ وہ تبدیلی کے لئے جیلوں میں جائیں یا کوڑے کھائیں ۔۔۔ مگر یہ امید ضرور کرتا ہوں کہ وہ خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے اور جب بھی موقع ملے درست فیصلہ کریں گے ۔ ذات، برادری، رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر انتخابی عمل میں بھرپور حصہ لیں گے۔ کیونکہ تبدیلی کے دو ہی راستے ہیں، بیلٹ اور بلٹ۔ میں کیونکہ بیلٹ سے تبدیلی کا حامی ہوں اس لئے توقع کرتا ہوں کہ وہ اپنے علم، تعداد اور وسائل کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ،آج ہی سے آنے والے انتخابات میں اپنے موقف کی حمایت کے لئے سیاسی عمل میں شرکت کریں گے اور سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کریں گے کہ وہ پاکستان کے اہم مسائل کے حل کے لئے نہ صرف منشور سے انہیں آگاہ کریں بلکہ تفصیلی روڈ میپ بھی مہیا کریں۔



.
تازہ ترین