• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک دفعہ کاذکر ہے۔ لیکن ایک دفعہ کا کیوں؟ سن دو ہزار پندرہ کی بات ہے۔ ایک ملک کا سابق بادشاہ اپنی مقبولیت کھو چکا تھا، رعایا میں پذیرائی کم ہو گئی اور عوام نئے بادشاہ کی توصیف میں مگن رہنے لگے۔ سابق بادشاہ تیزی سے اپنی وقعت کھو رہا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ شہنشاہ بھی اس سے اب ناراض سا رہنے لگا تھا۔شہنشاہ کی ناراضی صرف ناراضی ہی نہیں رہی بلکہ انتقامی کارروائی کا لا متناہی سلسلہ بنتی گئی۔ تخت پر بٹھانے والے اب تخت پر بیٹھنے والے کے لئے زمین تنگ کر رہے تھے۔ سابق بادشاہ کے ہم عصر زیر عتاب آرہے تھے۔حتی کہ مارچ دو ہزار پندر ہ کو اچانک کنیز خاص گرفتار ہوگئی۔ گرفتار کرنے والے کو اگرچہ صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا گیا مگر اس اپسرا کو ہزیمت کے لئے زندہ رکھا گیا۔اسی کے توسط سے سابق بادشاہ کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی۔بادشاہ کو سزا دینے کی خاطر کنیز خاص کو روز قاضی کی عدالت میں گھسیٹا گیا۔مملکت سے غداری کا الزام تو لگتا ہی رہتا ہے اس دفعہ شاہی خزانے پر ڈاکے کا مدعا بھی بادشاہ کی اس کنیز کے سر ہوگیا۔الزام یہ لگا کہ یہ حسینہ سلطنت کی دولت لے کر دساور کو فرار ہو رہی تھی۔ کسی نے یہ نہ پوچھا کہ گرفتاری کے وقت کنیز خاص کے پاس ملک سے روانگی کا پروانہ بھی تھا یا نہیں۔لیکن یہ ایک ایسے ملک کا قصہ ہے جہاں اگرشہنشاہ کی منشا میسرہو تو ثبوت وغیرہ کی فروعی بحث بے معنی ہو جاتی ہے۔ الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ اسی دوران بادشاہ کے دور حکومت کے ایک وزیر کا مقدمہ پھر عوام کی عدالت میں چلنے لگا۔ مذہبی امور کے اس وزیر کو گرچہ دو ہزار گیارہ میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر سزا بہت بعد میں سنائی گئی۔ الزام یہاں پر بھی قومی خزانے پر ڈاکے کا تھا۔ قصہ پرانا تھا مگر تشہیر کر کے تازہ کر دیا گیا۔ سابق بادشاہ کب تک اس ہزیمت کو برداشت کرتا۔ بادشاہ نے نو سال زندان میں رہ کر بہت سے سبق سیکھ لئے تھے۔ شہنشاہ پر وار کرنا بادشاہ کے پاس آخری حربہ تھا۔ لیکن یہ وار خطرناک بھی ہو سکتا تھا۔
سولہ جون دو ہزار پندرہ کو سابق بادشاہ کی ہمت جواب دے گئی۔ پہاڑوں کے درمیان بسے شہر میں اپنے درباریوں سے خطاب کرتے ہوئے بادشاہ نے وہ کہہ دیا جو اس سلطنت کی ریت روایت نہیں تھی۔ سابق بادشاہ نے واشگاف لفظوں میں کہہ دیا کہ تمہاری شہنشاہیت کا وقت متعین ہے۔ تم وقت کے گھوڑے پر سوار ہو، میری جڑیں زمیں میں ہیں۔ تم نے کچھ عرصے بعدچلے جانا ہے اور میںتمہیں رخصت کرکے بھی یہی رہوں گا۔سابق بادشاہ کا یہ کہنا تھا کہ بھونچال آگیا۔ شہنشاہ کا عتاب عروج کو چھونے لگا،تاوقتیکہ کہ سابق بادشاہ کو اس بیان کے نو دن کے بعدہی جان بچانے کی خاطر ملک چھوڑنا پڑا۔ یہ روانگی پچیس جون دو ہزار پندرہ کو عمل میں آئی۔مفرور بادشاہ اس افتاد سے اس قدر بوکھلایا کہ اپنی ملکہ کے یوم مرگ پر بھی وطن کا رخ نہیں کیا۔ ملک چھوڑ دینے سے بات ختم نہیں ہوئی۔ بادشاہ نے شہنشاہ سے ٹکر لی تھی اور اس ٹکر کاخمیازہ اسے ہر حال میں بھگتنا تھا۔ابھی انتقام کی آگ میں خوشامدی وزیروں اور درباریوںنے بھی جلنا تھا۔ انہی دنوں ریاست کے ایک صوبے کے وزیر پرنشر واشاعت کے معاملات میںمالیاتی بدعنوانی کا ایک واقعہ منظر عام پر آیا ۔ طبلچیوں نے خوب ڈھنڈورا پیٹا۔ بدعنوانی کے خوب اشتہار چلائے۔ حتی کہ خوف کے عالم میں یہ وزیر بھی پردیس کا مسافر ہوا اور مفرور کہلایا۔طبلچیوں نے پھر بدعنوانی کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ ابھی اس معاملے کی دھول بیٹھی بھی نہیں تھی کہ بدکلام سابق بادشاہ کو سزا دینے کی خاطر ایک اور وزیر زیر عتاب آگیا۔ یہ بادشاہ کا چہیتا دوست اور ہم راز تھا۔ تیل کا وزیر تھا اور کاروبار کے علاوہ ایک مطب بھی چلاتا تھا۔اس پر کرپشن کا وہ نعرہ لگا کہ ایک عالم ششدر رہ گیا۔ لوٹ کی رقم اتنی بتائی گئی کہ خزانہ چھوٹا پڑ گیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مقدمہ لوٹ مار کا نہیں بنابلکہ شر پسندوں کے علاج معالجے کے الزام میں پابند سلاسل کیا گیا۔ بدعنوانی اور لوٹ مار کا طبل پھر ہر چوراہے میںبجنے لگا۔ یاد رہے اس وزیر کی گرفتاری کی تاریخ چھبیس اگست دو ہزار پندرہ کو عمل میں لائی گئی۔
اس سارے عمل میں رعایا نے تالیاں بجائیں ، لوٹ مار کرنے والوں کو برا بھلا کہا ۔ بدعنوان لوگوں کے احتساب پر خوشی کا اظہار کیا۔یہ جانے بغیر یہ لوگ اگر بدعنوان ہی تھے تو یہ سر عام رسوائی اچانک کیوں ہو رہی ہے۔ لوگوں نے لمحہ بھر کو نہیں سوچا کہ یہ عتاب یکدم کیوںنازل ہوگیا ہے۔سابق بادشاہ کی عظیم غلطی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ بس لوگ گرفتاریوں پر تالیاں بجا کر خوشیاں مناتے رہے۔
ادھرشہنشاہ لوگ جانتے تھے کہ ریاستوں کے امور میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ حالات کبھی بھی پلٹا کھا سکتے ہیں۔ دشمن کبھی بھی مفید مہرہ ہو سکتا ہے۔
سلطنت کے حالات اچانک بدلنے لگے۔ نئے بادشاہ نے قدم جمانے شروع کر دیئے۔ شہنشاہ کے حضور اگر چہ وہ کسی گستاخی کا اب تک مرتکب نہیں ہوا مگر اس کی بڑھتی طاقت شہنشاہ کے لئے پریشانی کا سبب ضرور بن رہی تھی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ لیکن ایک دفعہ کا کیوں دو ہزار سترہ کا ذکر ہے۔حالات نے پلٹا کھایا۔ مجرم رہا ہونے لگے۔ ملزم بے گناہ ثابت ہونے لگے۔سابق بادشاہ پھر مقبول اور محفوظ ہونے لگا حتی کہ تیئس دسمبر کو اٹھارہ ماہ کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وہ پھر وطن آ دھمکا۔اپسرا جیسی کنیز خاص کو تیئس فروری دو ہزار سترہ کو اچانک اڑان بھرنے کی اجازت مل گئی۔ برسوں سے قید وزیر حج یکدم بے گناہ ثابت ہو گیا۔ بیس مارچ دو ہزار سترہ کو اس کو بھی پروانہ رہائی نصیب ہو گیا۔ اس کی بے گناہی پر قاضی شہر نے اس لئے مہر لگا دی کہ اچانک وکیل استغاثہ کا ہی دل موم ہو گیا۔ نشر و اشاعت کے بھگوڑے صوبائی وزیر نے موقع غنیمت جان کر وطن کی راہ لی۔ اس دفعہ نہ گرفتاری ہوئی نہ کوڑے لگے بس معمولی باز پرس کے بعد پروانہ آزادی نصیب ہوا۔ تیل کے وزیر کے معاملے میں بھی یکدم مقدمہ لپیٹ دیا گیا۔ استغاثہ اس دفعہ بھی رحم دل ہو گیا۔ قاضی کیا کرے جب مقدمہ لڑنے والے دلائل نہیں دیں گے تو مقدمہ خود اپنی موت مر جائے گا۔
اس ساری کہانی میں رعایا یہی سمجھ رہی ہے کہ بادشاہ وقت اور سابق بادشاہ میں گٹھ جوڑ ہو گیا ہے۔ اب دونوں مل کر خزانے کو لوٹیں گے۔ قرائن بتاتے ہیں گٹھ جوڑ تو یقینا ہوا ہے لیکن تاحال یہ معلوم نہیں سابق بادشاہ پر اس مہربانی کا سبب بادشاہ وقت ہے یا اس میں شہنشاہ کا کوئی مفاد پوشیدہ ہے؟کہانی اس وقت ایک اور دلچسپ موڑ پر آ جاتی ہے جب سابق بادشاہ ، شہنشاہ سے متعلق ایک نشریاتی ادارے میں معمولی سی نوکری کرنے کا عندیہ دے دیتا ہے۔ سیانے کہتے ہیںگٹھ جوڑ کا الزام بادشاہ وقت پر ڈال کر پتلیوں کی سب ڈوریاں شہنشاہ نے اپنے ہاتھ میں تھام لی ہیں۔
اس ملک کے لوگ سادہ لوح بادشاہ وقت کو بھی جانتے ہیں اور سابق بادشاہ سے بھی بخوبی واقف ہیں۔وہ جانتے ہیں سابق بادشاہ ایک نہایت کائیاں اور زیرک شخص ہے وہ جب مجبورا دوستی کرتا ہے تو تب بھی دل میں دشمنی کی آگ جلائے رکھتا ہے۔ موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ کینہ دل میں رکھتا ہے اور اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر وار کرتا ہے۔آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے۔یہ نہ ختم ہونے والی کہانی ابھی جاری ہے۔ کسے معلوم فتح کس کا مقدر بنتی ہے اور شکست کس کے گلے کا ہار ہوتی ہے؟ لیکن ہمیں تاریخ یہی سبق دیتی ہے کہ انا اور اقتدار کی ایسی جنگوں میں مارے ہمیشہ پیادے جاتے ہیں۔



.
تازہ ترین