• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی جاسوسوں کی ویزہ درخواستوں کا میرے سامنے ڈھیر لگا تھا، جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ نئے ویزہ فارم، ویزہ کی ایکسٹنش کے فارم، خالی انٹریز، مشکوک معلومات، جعلی ویزہ فارم۔ بین الاوزارتی میٹنگز میں کہا جاتا کہ پورے کوائف کے بغیر فارم وزارتِ داخلہ کو نہ بھیجیں، بعد میں کہا جاتا فارم کیوں روکے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا فارن آفس کا رول تو ایک پوسٹ آفس کا ہے، آپ سے جو کہا جاتا ہے وہی کریں وغیرہ وغیرہ۔۔ میرے پاس کھونے کو جو کچھ تھا وہ میں خود ہی بخوشی پیش کر چکا تھا، پورا مہینہ امریکی جاسوسوں کی شاید ہی کوئی درخواست میں نے فارورڈ کی ہو۔ ریمنڈ ڈیوس تو ہمارے سارے’’مقدس‘‘ اداروں کی ملی بھگت سے فرار کرا دیا گیا تھا لیکن اس کو بچانے کیلئے آنیوالی لینڈ کروزر جس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مزید معصوم پاکستانی کو کچل دیا تھا، اسکی امریکی سفارتخانے سے حوالگی کیلئے پنجاب حکومت کا لیٹر بھی انہی دنوں میری نظر سے گزرا۔ آئے روز امریکی جاسوس پاکستان کی سڑکوں پر دندناتے ہوئے پکڑے جا رہے تھے، جب پولیس و دیگر سیکورٹی ادارے پہنچتے تو وہ شیشے چڑھا کر اندر سے دروازے لاک کر لیتے۔ پھر اوپر سے کسی کا فون آ جاتا اور وہ چھوڑ دیئے جاتے۔ اسی دوران میرے ڈیسک پر ایسے لیٹرز کا ڈھیر لگ جاتا کہ فلاں فلاں غیر ملکی (جاسوس) فلاں فلاں ممنوعہ علاقوں میں جاتے ہوئے پائے گئے یا جانے سے روکے گئے۔ یہ وہ غیر ملکی تھے جنکے لئے کسی بھی ممنوعہ علاقے میں جانے سے پہلے میری ڈیسک سے اجازت نامہ لینا ضروری تھا۔ میرے ڈیسک کیساتھ حساس اداروں کے افسروں کی ان معاملات پر خط و کتابت ہوتی تھی، ایک دن ان پُر اسرار گتھیوں سے تنگ آ کر متعلقہ افسرکو فون کیا اور پوچھا یہ ہو کیا رہا ہے اور اسے کیسے روکا جائے تو انکا جواب کچھ اسطرح کا تھا کہ ہمیں اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی چاہئے، جب بات اوپر جاتی ہے تو پھر ہم سب بے بس ہو جاتے ہیں۔
وزارتِ خارجہ کے اس وقت کے اس انتہائی اہم اور حساس ڈیسک پر مجھے چند روز پہلے ہی تعینات کیا گیا تھا۔ تعیناتی کے وقت مجھے بتایا گیا کہ ہم نے آپ کا پروفائل دیکھا ہے اور آپ کو ایک انتہائی حساس ڈیسک پر لگایا جا رہا ہے۔ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ مجھے کونسی حساس ذمہ داری دی جا رہی ہے لیکن اگر فارن آفس کے افسروں کو دلوں کا حال معلوم ہوتا تو کبھی مجھے اس حساس ڈیسک پر نہ لگاتے کیونکہ میری تعیناتی کے چند گھنٹوں بعد ہی فارن آفس میں ایک بھونچال آگیا۔ پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر میں بہت حساس تھا اور ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے چند گھنٹے قبل ہی وزارتِ خارجہ نے مجھے جس حساس ڈیسک پر تعینات کیا وہی ڈیسک ریمنڈ ڈیوس سمیت دیگر امریکی جاسوسوں کو دیکھ رہا تھا۔ چند ہی گھنٹوں بعد دفتر خارجہ کو اسی حساس ڈیسک کے افسر کا استعفی موصول ہوا، جسے چند گھنٹوں پہلے وہ حساس ڈیسک سونپا گیا تھا۔ اور استعفی میں فارن آفس کے اعلیٰ افسروں کو بھی اس قومی تحقیر میں برابر کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ استعفی کی کہانی آپ پہلے بھی کئی دفعہ سن چکے لیکن آج کا موضوع استعفیٰ کے بعد کی کہانی ہے۔ ایک مہینے کا نوٹس تھا، سو اس ایک مہینہ میں جو کچھ دیکھا اوپر بیان کر دیا۔ یہ ٹھیک وہی زمانہ تھا جو حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں حالیہ کالم کے بعد چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان کے حوالےسے زیر بحث ہے۔ اصل ذمہ داران کی بجائے صرف حسین حقانی، یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔
ان دنوں میں بھی صرف آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، حسین حقانی اور فارن آفس کے سینئر ترین دو چار افسروں کو ’’ذمہ دار‘‘ سمجھتا تھا۔ یہ تو بہت بعد میں کھلا کہ یہ سب افراتفری ایبٹ آباد کے ایک حساس ترین مقام پر اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے اور پکڑنے کیلئے تھی جو امریکہ اور اسکی سربراہی میں دنیا کو مطلوب ترین شخص تھا۔ لیکن امریکیوں کی ایک اچھی بات ہے کہ اپنے مفادات کیلئے ہمارے جیسے ملکوں کے مقدس گائے بیلوں کو پہلے استعمال کرتے ہیں اور پھر جلد یا بدیر نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے آرٹیکلز، وکی لیکس اور زیرو ڈارک تھرٹی جیسی فلموں کے ذریعے انکو بے نقاب بھی کر دیتے ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کروانے والے اصل ’’با وقار‘‘ اور ’’صاحب توقیر‘‘ کردار عرصہ پہلے نیو یارک ٹائمز اور سی آئی اے کے خفیہ آپریشنز پر لکھی جانے والی کتاب (The way of knife) کے ذریعے بے نقاب ہو چکے۔حسین حقانی سے گلہ ناجائز ہے کہ وہ تو تھے ہی امریکہ کے سو اسی کے وفا دار ہیں۔ البتہ پاکستان کو امریکہ کے جاسوسوں کیلئے جنت بے نظیر بنانے والے دیگر کرداروں کا حساب کہیں اور ہو تو ہو، اس دنیا میں تو سب کے سب پورے اعزاز کے ساتھ اپنےعہدوں سے با عزت سبکدوش ہوئے۔ ایک یوسف رضا گیلانی نے بظاہر اس دنیا میں قیمت چکائی۔ پہلے وزارتِ عظمی گئی اور پھر کئی سال تک اپنے لختِ جگر کے اغوا کا دکھ جھیلا۔ اغوا کے پیچھے کیا محرکات تھے، علیحدہ بحث لیکن کیا اس سے بڑی سزا بھی اس دنیا میں کوئی ہو سکتی ہے؟
اس وقت جو بحث ہو رہی ہے وہ خلط مبحث کے علاوہ کچھ نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو بھی چھوڑیں، امریکی جاسوسوں کی فوج کو بھی چھوڑیں، اصل سوال کی طرف آئیں۔ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کے حساس ترین علاقے میں کیوں تھا؟ اسکا ذمہ دار کون تھا؟ امریکی آپریشن کی مزاحمت کس نے کرنی تھی؟ بے خبری تھی یا ملی بھگت؟ کوئی نہ کوئی تو ذمہ دار تھا؟ یا سب ملے ہوئے تھے؟ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کیوں شائع نہیں ہونے دی جارہی؟ریاست کے اندر کتنی ریاستیں ہیں؟ ریاست کے اندر دیگر ریاستیں کیوں ہیں؟ اسامہ بن لادن کی بینظیر بھٹو کیساتھ مبینہ رقابت کی خبریں کس نے نہیں سنیں؟ کیا ریاست پاکستان اسامہ بن لادن کی تلاش کی بین الاقوامی کوششوں کا اعلانیہ حصہ نہیں تھی؟ کیا پاکستانی قوم نے آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کو بغیر دھاندلی کے حقیقی مینڈیٹ نہیں دیا تھا؟ جسے مینڈیٹ ملے کیا وہ فیصلے کرنے میں خود مختار نہیں؟ مجھے حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں لیکن باخبر لوگ ان سارے سوالوں کے جواب جانتے ہیں۔ اگر تو ان سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو اور بات ہے لیکن اگر جواب اثبات میں ہیں تو پھر آصف زرداری کیسے ذمہ دار ہوئے؟ اکیلے تو بالکل بھی نہیں!



.
تازہ ترین