• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئندہ عام انتخابات میں ایک سال سے زائد کا عرصہ باقی ہے۔ تاہم محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی موسم کا آغاز ہو چکا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تو خیر گزشتہ چار برس سے حالت انتخاب (election mode) میں ہیں۔ اب سابق صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم نوازشریف نے بھی کمر کس لی ہے۔ حالیہ ماہ میں وزیر اعظم نواز شریف نے صوبہ سندھ کے تین دورے کیے ۔ مختلف اسٹیک ہولڈرز سے ملاقاتیں کیںاور اہم منصوبوں کا اعلان کیا۔ دوسری طرف زرداری صاحب پنجاب میں براجمان ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کیخلاف سیاسی اعلان جنگ کر دیا ہے۔ فرمایا کہ چار سالہ مفاہمت اختتام پذیر ہوئی ، موجودہ سال مزاحمت کا سال ہو گا۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی نگاہیں اب آئندہ انتخابات پر مرکوز ہیں اور ایک غیر اعلانیہ انتخابی مہم شروع ہو چکی۔ یہ بات غورطلب ہے کہ انتخابی مہم میں سیاسی جماعتیں کس نامہ اعمال کی بنیاد پر ووٹ کی طلب گار ہوں گی۔ خود سیاسی جماعتوں کیلئے بھی اس امر کی تفہیم بے حد ضروری ہے۔
حالیہ دورہ حیدر آباد میں وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ کی ابترحالت زار کا تذکرہ کرتے ہوئے ، سندھی عوام کی توجہ دلائی کہ وہ پیپلز پارٹی سے سوال کریں کہ پانچ سالہ دور اقتدار میں اسکی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پاکستان اور سندھ کے عوام کیلئے کیاکیا؟ انہوں نے حکومت سندھ کی ناقص کارکردگی کا ذکر بھی کیا۔ عام طور پر میاں نوازشریف کی انتخابی حکمت عملی کا بنیادی نکتہ اپنی حکومتی کارکردگی ہوا کرتا ہے۔ 2013 کی انتخابی مہم میں بھی یہی حکمت عملی انکے پیش نظر رہی۔ عوامی رابطہ مہم میں انہوں نے مسلم لیگ کے گزشتہ ادوار اور پنجاب میں شہباز حکومت کی کارکرگی کو عوام کے سامنے رکھا ۔ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ وفاقی حکومت کے قیام کا بڑا کریڈٹ ، شہباز شریف کی گزشتہ حکومتی کارکردگی کو جاتا ہے۔ انتخابات 2018 میں بھی مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی کارگزاری کا تذکرہ کرنے کیلئے بہت ہو گا۔ بلوچستان اور کراچی میں امن عامہ کی بحالی، معیشت کا استحکام، اوربڑے ترقیاتی منصوبے۔ ووٹ طلب کرتے وقت سی پیک،میٹرو، اورنج لائن، ہیلتھ کارڈ اسکیم، نوجوانوں کیلئے اسکیمیں اور ایسے دیگر اقدامات کا حوالہ دیا جائے گا۔ آئندہ ماہ میں اگرحکومت توانائی کے بحران پر قابو پا سکے اور پانامہ لیکس کے معاملے میں عدالتی کلین چٹ حاصل کر لے ، تو مسلم لیگ(ن) سر اٹھا کر انتخابی میدان میں اترے گی۔ اگلے انتخابات میںامکانی طور پرمسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ سندھ میں بھی متحرک ہوگی ۔ محمد زبیر کی بطور گورنر سندھ تعیناتی اور وزیر اعظم کے دوروں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہاہے۔
جوابی اقدام کے طور پر،پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے پنجاب میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ بلاول بھٹو کی غیر متاثر کن سیاسی رونمائی (launching) کے بعد، انہوں نے پارٹی کی کمان خود سنبھال لی ہے۔ نئی انتخابی حکمت عملی کے تحت، کارکنوں ، جیالوں اور پارٹی عہدیداروں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ کیا اس تبدیل شدہ حکمت عملی کیساتھ پی پی پی کی ساکھ کی بحالی ممکن ہو سکے گی؟ سچی بات ہے کہ اسکے امکانات بہت کم ہیں۔ آخر پی پی پی کس بنیادپر عوام سے ووٹ مانگے گی۔اسکا گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت بد عنوانی (corruption) کا استعارہ بن چکا۔ اس دوران لوٹ مار کی جو داستانیں رقم ہوئیں،وہ ابھی عوام کی یادداشت سے محو نہیں ہوئیں۔ پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ پانچ سالہ دور حکومت میں انکے ہاتھ بندھے رہے اور انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ زرداری صاحب اور انکے حواری اب بھی سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا حوالہ دیتے ہیں۔ افتخار چوہدری کو رخصت ہوئے برسوں بیت چکے، تاحال پیپلز پارٹی کی کارکردگی بہتر نہیںہو سکی۔ یہ جماعت گزشتہ نو برس سے سندھ میں بر سر اقتدار ہے ، مگرتمام صوبہ قرون وسطیٰ کے زمانے کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سہون شریف میں دہشت گردی کا افسوسناک سانحہ ہوا۔ اس واقعہ نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے آبائی حلقے میںسڑکوں ، اسپتالوں اور دیگرسہولتوں کی ابتر صورتحال آشکار کی۔ زرداری صاحب کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کے حلقے ،لاڑکانہ میں 90 ارب کے ترقیاتی فنڈز کی خورد برد کی واردات بھی زمانہ حال کا قصہ ہے۔سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے محترمہ تالپور کے متعلق جو کچھ کہا اسے دہراتے شرم آتی ہے۔خودآصف زرداری صاحب کی شہرت یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈروں نے انتخابی پوسٹرز پرانکی تصویر لگانے سے اجتناب برتا۔ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بلاول بھٹو کو تھمانے کی وجہ یہی تھی کہ پارٹی زرداری صاحب کی چھاپ سے چھٹکارہ حاصل کر سکے۔ مگر بلاول کا جادو نہ چل سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، ایان علی جیسے چہرے (اپنے تمام کارناموں کیساتھ) پیپلز پارٹی کی پہچان بن چکے۔ ایسے میں جب زرداری صاحب صوبہ پنجاب کو فتح کرنے، اسکے عوام کوترقی و خوشحالی دلانے کا اعلان فرماتے ہیں تو اسے کیونکر سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنی ساکھ کی بہتری کیلئے سندھ حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ انتخابی مہم میں اسکے پاس کہنے اور دکھانے کیلئے کچھ نہ ہو گا۔
اگر خیبر پختونخوا حکومت کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا موازنہ ،پیپلز پارٹی کی نو سالہ کارگزاری سے کیا جائے تو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ پرویز خٹک حکومت کی کارکردگی نسبتا بہتر رہی۔ تاہم اسقدر متاثرکن نہیں جسکی بنیاد پر عمران خان انتخابی مہم چلا سکیں۔ 2013 میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا مرکزی نکتہ سیاسی مخالفین پر الزام تراشی ، تھا۔ گزشتہ چار برسوں میں بھی عمران خان نے یہی طرز سیاست اپنائے رکھا۔ انکی سیاست جلسے جلوسوں، دھرنوں، ریلیوں، اورسیاسی بیان بازی تک محدور رہی ۔ہمہ وقت وہ کسی "غیبی امداد" کے منتظر رہے۔ اپنی قائدانہ صلاحیت کے ثبوت کے طور پر انکے پاس "کرکٹ ورلڈ کپـــــــ ــــ" اور "شوکت خانم اسپتال" کے علاوہ کوئی تیسری مثال نہیں۔ خان صاحب نے کرپشن کے خاتمے اور احتساب کا نعرہ لگایا۔ مگرتاحال خیبر پختونخوا میں احتساب کا کوئی نظام قائم نہیں کر سکے۔ برسوں سے اکبر ایس بابر پارٹی فنڈز میں خورد برد کا حساب مانگ رہے۔ لیکن عمران خان حساب دینے سے گریزاں ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ تعلیمی اصلاحات اور میرٹ کا تذکرہ کیا۔ مگر صوبے میں تعلیم کی وزارت ایک ایف ۔اے پاس شخص کو سونپ دی۔ مراد سعید کی جعلی ڈگری کا بھی تحریک انصاف نے ڈٹ کر دفاع کیا۔ خان صاحب نے پروٹوکول کے معاملہ پر ہمیشہ دیگر سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خود عمران خان ، پرویز خٹک اور انکے وزراکے پروٹوکول سے متعلق قصے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ پنجاب حکومت کی میٹرو بس پر برسوں تنقید کرتے رہے۔ اب اسی کی تقلید میں خیبر پختونخوا میں میٹرو بس منصوبے کا آغاز کر چکے۔ پولیس ریفارمز اور شجر کاری کے علاوہ انکے دامن میں کوئی قابل ذکر کار نامہ نہیں۔ فی الحال تو یہی نظر آتا ہے کہ 2018 کی انتخابی مہم ،عمران خان اپنی حکومتی کارکردگی کے بجائے سیاسی مخالفین پر الزام تراشی کی بنیاد پر چلائیںگے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام برسراقتدار سیاسی جماعتیں اپنی حکومتی کارکردگی کا محاسبہ کریں۔ مختلف صوبوں میں متحرک ہو نا تمام سیاسی جماعتوں کا آئینی، قانونی، جمہوری اور سیاسی حق سہی، تاہم فی الحال ا نکی ترجیح اول اور توجہ کا محور وہ صوبے ہونے چاہئیں، جہاں پر وہ برسر اقتدار ہیں۔ طویل انتخابی مہم پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کے بجائے ، انہیں 2013 میں حاصل کردہ ووٹوں کا حق ادا کرنے پر توجہ مبذول کرنی چاہئے۔




.
تازہ ترین