• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اپنے سگے بھائیوں اور دہلی کے تخت کے قانونی حق داروں کو یکے بعد دیگرے تلف کر کے ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عرف عالمگیر کی ’’مخفی‘‘ کے تخلص کے ساتھ پوشیدہ مگر خوبصورت شاعری فرمانے والی شہزادی زیب النساء کے تعمیر کردہ لاہور کے چوبرجی پارک جو ایک طویل عرصے اور حنیف رامے کے وزیر اعلیٰ بننے تک تین برجوں کے باوجود ’’چوبرجی‘‘ کہلاتا رہا جیسے اپنی کشمیر کی شہ رگ کے بغیر پاکستان ستر سالوں سے پاکستان کہلا رہا ہے مگر اندیشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ لاہور میں اورنج ٹرین کے اجرا سے اس یادگار تاریخی عمارت کی زندگی یعنی وجود خطرے میں پڑ جائے گا چنانچہ اورنج ٹرین کے منصوبے میں کچھ ترامیم پر کام ہو رہا ہے مگر ان ترامیم میں سے یہ اندیشہ بھی جھانک رہا ہے کہ شاید اورنج ٹرین کے جاری ہونے سے پہلے ہی چوبرجی پارک کا یہ صدر دروازہ ان ترامیم پر عمل درآمد کے دوران خدانخواستہ وفات پا جائے گا تو اس کے گر جانے کا اندیشہ بھی رہے گا۔ ویسے بھی اورنج ٹرین کے منصوبہ سازوں کی طرف سے یہ وعدہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے کہ حکومت پرانی یادگار عمارتوں کے گرائے جانے کے بعد ’’نئی یادگار عمارتوں‘‘ کی تعمیر مکمل کر سکتی ہے اور حکومت اس کی مالی استطاعت بھی رکھتی ہے لیکن یہ صرف ہماری حکومت ہی کر سکتی ہو گی کہ وہ پرانی یادگار عمارتوں کی جگہ نئی عمارتیں تو تعمیر کر سکتی ہو گی مگر ان عمارتوں کو ’’یادگار‘‘ کیسے قرار دے گی؟ حکومت کو اس کی مالی استطاعت حاصل ہو گی تو پھر لاہور کو تمام پرانی یادگار تاریخی عمارتوں سے نجات دلا کر نئی آبادیوں کی تعمیر کے ٹھیکہ داروں کو خوش کر کے اگلے عام انتخابات کو محفوظ کر سکتی ہے۔شہزادی زیب النساء کا ’’چوبرجی پارک‘‘ اور اس کا نواحی علاقہ گزشتہ آٹھ نو مہینوں سے شکست و ریخت کی کارروائیوں کی زد میں ہے مگر اس کے مینار اور دروازہ بہت ہی سخت جاں ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور یہاں کےمصروف ترین راستوں سے گزرنے والے بھی بہت بڑی ہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے تحت یہاں سے گزرنے والی اورنج ٹرین پر جو لاگت آ سکتی ہے یہاں سے پرانے (غیر اورنج ٹرین) انداز سے گزرنے والے لاہور کے عوام اپنی گاڑیوں اور دیگر آلات سفر کی مرمت پر اس سے کہیں زیادہ خرچ کر چکے ہیں۔ زیر زمین سے ابھرنے والی مٹی کو سانس کا حصہ بنا کر پھانکنے پر مجبور کئے گئے شہری بھی اپنے پھیپھڑوں کے عارضے کے علاج پر بھی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور ابھی اور کریں گے۔ اور شائد اورنج ٹرین کے اجراء کے بعد بھی علاج معالجے کو جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ ان تمام دکھ دینے والے حالات کے باوجود لاہور کے شہریوں سے حکومت کا اورنج ٹرین جاری کرنے کے منصوبے کی مخالفت نہیں کی جا سکتی۔ تعمیر نو کے منصوبے لائق تعریف اور خیر مقدم کے قابل ہوتے ہیں پاکستان میں ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران بھی لوگوں نے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کیا ہو گا اور شور بھی مچایا ہو گا مگر پاکستان میں سے ریلوے لائن گزارنے والے انگریز حکمرانوں پر دوسری عالمی جنگ کے ذریعے فوجی بھرتی کے سلسلے کو دور دور تک پھیلانے کی ضرورت تھی اس لئے ریلوے ٹرین کے اجراء کی خلاف ورزی کو برداشت کیا گیا یہ الگ بات کہ ہندوستان میں ریلوے سسٹم کے جاری کئے جانے کی سب سے زیادہ حمایت سوشلزم کے بابا آدم کارل مارکس نے کی تھی ان کا کہنا تھا کہ انگریز اپنی نو آبادی ہندوستان میں ریل تعمیر کر کے ہندوستان سے نکل جانے یا بھاگ جانے کی راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ مگر پاکستان کے شہر لاہور میں اورنج ٹرین کا سلسلہ جاری ہونے کے سلسلے میں شائد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کوئی خوش فہمی پال رکھی ہو تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وطن عزیز میں کارل مارکس سے بھی آگے کا سوچنے والے موجود ہیں اور اچھی خاصی تعداد میں موجود ہوں گے۔ مغل شہزادی زیب النساء اور خادم پنجاب کا مقابلہ جاری رہنے کی توقع بھی کی جا سکتی ہے مگر چوبرجی پارک کے گیٹ کی زندگی خطرے میں بتائی جاتی ہے۔



.
تازہ ترین