• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں جمعہ 31مارچ کو بجلی مہنگی کئے جانے، زائد بلنگ اور طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف جس احتجاج اور دھرنے کا جماعت اسلامی کی مقامی قیادت کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا، اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی انتظامیہ نے جس ردّعمل کا اظہار کیا، وہ تعجب انگیز ہے۔ ایسے وقت کہ وفاق اور صوبے میں عوامی حمایت کی حامل حکومتیں برسراقتدار ہیں اور ان کے رہنما جمہوری اقدار کی سربلندی کے لئے اپنی اپنی قربانیوں کے تذکرے بھی دہراتے رہتے ہیں، یہ بات اچھی نہیں لگی کہ بجلی صارفین کو اپنی شکایات کے اظہار کے لئے پرامن جمہوری طریقوں کے استعمال سے روک دیا جائے اور اعلان کردہ ریلی یا دھرنے کے آغاز، حتیٰ کہ قائدین کے اپنے پارٹی دفاتر سے باہر آنے سے قبل ہی بڑے پیمانے پر پولیس فورس حرکت میں لاکر محاصروں، رکاوٹوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ جمہوری معاشروں میں ایسے طور طریقوں سے اجتناب برتا جاتا ہے جن سے پرامن احتجاج کرنے والوں میں اشتعال پھیلے اور نوبت لاٹھی چارج، شیلنگ اور ہوائی فائرنگ تک جاپہنچے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، روزافزوں مہنگائی اور اوور بلنگ کی شکایات ایسی بہرحال نہیں کہ انہیں یکسر بے وزن قرار دے دیا جائے۔ چھوٹے چھوٹے رہائشی گھروں میں لاکھوں روپے کے بل بھیج دیئے جاتے ہیں اور صارفین کو محتسب اعلیٰ کے فیصلے کے باوجود مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا رہتا ہے۔ اس منظر نامے میں اگر ایک سیاسی جماعت یا انسانی حقوق کی تنظیمیں پرامن احتجاج کرتی ہیں تو دفعہ 144کو جواز بناکر ایسا منظر نامہ تخلیق کرنا کسی طور مناسب نہیں جس سے کسی بغاوت کے جنم لینے یا اسے ختم کرنے کا تاثر ملے۔ ماضی میں اپنی روشنیوں اور صاف ستھرے ماحول کے باعث ’’عروس البلاد‘‘ کہلانے والے شہر کراچی کی رونقیں واپس لانا سب کی ذمہ داری ہے جس کیلئے حکومت کو عوامی شکایت پر توجہ دینا، متعلقہ بجلی کمپنی کو یکطرفہ روایتی بیانات کی روش سے ہٹ کر عملی طور پر عوام کو مطمئن کرنا اور عوام کو اپنے مشوروں کے ذریعے مذکورہ فریقوں کی رہنمائی کرنا ہوگا۔

.
تازہ ترین