• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہوسکتا ہے کہ آپ اس معاملے میں خوش قسمت ہوں لیکن میں کم از کم بالکل نہیں ہوں۔ خوش قسمتی اس لحاظ سے کہ ہوسکتا ہے آپ کو اپنی زندگی میں زیادہ تر پولیس افسران فٹ، اسمارٹ اور ایماندار ملے ہوں۔ مجھے نہیں ملے۔ میری سمجھ سے تو یہ بالکل باہر ہے کہ اپنی سروس کے دوران یہ افسران اپنی قلیل تنخواہ کے باوجود اپنے بچوں کو مہنگے ترین اسکولوں، کالجوں میں کس طرح پڑھا لیتے ہیں اور پھر بعد میں پاکستان سے باہر اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی بھیج پاتے ہیں۔ یہ بھی میں سمجھنے سےقاصر ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جن مراعات سے یہ فیض یاب ہوتے ہیں وہ کیسے ملتی ہیں؟ اور پھر ان کے کئی کئی کنال پر محیط گھر کیسے بن جاتے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ ہمارے جرنیلوں کی طرح ان کو بھی جائز طور پر ریٹائرمنٹ پر مربعے ملتے ہوں لیکن کتنے یہ میں نہیں جانتا۔
یہ تو کہانی ہے بڑے افسران کی لیکن چھوٹے کارکن یا افسران اپنی کمی شاید کھاپی کر پوری کرتے ہیں جو ان کے پیٹ نوکری کرتے ہی کمرسے باہر ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس طرف انہیں شاید نیب کی چلنےوالی کمپین راغب کردے اور تو کوئی نہیں کرسکتا۔ یہاں بھی میرے تجربے میں ایسا کوئی نہیں آیا جسے میں اسمارٹ اور ایماندار کہہ سکوں۔ پیٹوں کا ان کے جو حال ہے اس بارے میں ہمارے دوست مبشر حسن اور مدثر نواب نے ایک خوبصورت خبر سنائی ہے۔ کہتے ہیں پنجاب پولیس کی نئی تبدیل ہونے والی یونیفارم نے پولیس افسروں اور اہلکاروں کے لئے بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔ بڑی توند اور بڑی چھاتیاں لئے پنجاب کے 2565پولیس اہلکاروں کو نئی وردیاں پوری نہیں آرہیں۔ ان کے لئے ان وردیوں میں گھسنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان اہلکاروں نے اپنے ناپ کے مطابق فٹ آنے والی وردیاں لینے کے لئے دفاتر کے چکر لگانے شروع کردیئے ہیں۔ لیکن یا تو وہ فٹ نہیں ہیں یا وردیاں بنانے والوں نے شاید کسی اور ملک کے افسران کے سائز کی وردیاں سی دی ہیں۔ افسران اہلکاروں کو اپنی توند چھوٹی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن ’’رزق۔۔‘‘ کھانے والے یہ اہلکار اپنی توند چھوٹی کریں تو کیسے کریں؟ تفصیلات یہ کہتی ہیں کہ ریٹائر ہونے والے آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد پولیس افسران اور اہلکاروںکو نئی وردیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن بڑے بڑے پیٹ والے اکثر اہلکاروں کو یہ وردیاں پوری نہیں آ رہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جاتے جاتے آئی جی صاحب ان اہلکاروں کے ساتھ ہاتھ کرگئے ہیں۔ وہ تو نئی وردیاں دے کر اپنے عہدے سے خوش اسلوبی سے سبکدوش ہو جائیں گے لیکن نام تو بدنام ہوگاان بیچارے اہلکاروںکا جن کی توند باہر ہی نہیں بے حد باہر ہے۔ اب آپ ہی بتایئے ایسے میں یہ اہلکار کیا کرتے؟ یا تو یہ درخواست کرتے کہ یہ سائز تو ہماری خواتین پولیس کی اہلکاروں کا ہے لہٰذا یہ وردیاں انہیں دے دی جائیں یا یہ کہ انہیں ان کے سائز کی وردیاں بنوا کردیں۔ ان لوگوں نے دوسرے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ افسران کو درخواست دی ہے کہ انہیں سائز کے مطابق وردی دی جائے۔ اب بری قسمت ان کی کہ اعلیٰ افسران نے انہیں وردی کے مطابق سائز کا ہونے کے لئے دن رات ورزش کا مشورہ دیا ہے۔ اب کھا کھا کر بڑی ہونےوالی توند صرف ورزش سے تو کم نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے بہت لمبی پلاننگ کی ضرورت ہے اور اس کی سکت اور ہمت ان اہلکاروں میں ہے نہیں۔ ان بڑی توندوں والوں نے اپنے تئیں ایسی کوشش بھی کی ہے کہ پرائیویٹ درزیوں کو لے کر اپنے سائز کی وردیاں سلوالیں لیکن ان درزیوں کا کہنا ہے کہ ان وردیوں میں اضافی کپڑا نہیں ہے۔
سو انہیں سائز سے بڑا نہیں کیا جاسکتا۔ اب خرابی قسمت کہ اس طرح کا کپڑا مارکیٹ میں بھی دستیاب نہیں ہے کہ یہ اہلکار خرید کر اپنے لئے اپنے سائز کی وردی بنوا سکیں۔ اس حوالے سے ایک اہلکار نے اپنا نام اور توند کا سائز ظاہر نہ کرنے کی قسم دیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ یہ زیادتی سراسر آئی جی صاحب نے کی ہے کہ جو وردیاں ان کے سائز کی نہیں بنوائی گئیں۔ اوپر سے ظلم یہ کہ ان اہلکاروں کو کہا گیا ہے کہ ایک مقررہ تاریخ کے بعد پرانی وردیاں ختم ہو جائیں گی اور نئی وردی پہننا لازم ہوگا۔ یہ تاریخ قریب آنے کے ساتھ ان توندوالے افسران اور اہلکاروںکے دلوںکی دھڑکنیں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ مقررہ تاریخ کے بعد اگر کوئی اہلکار پرانی وردی میں نظر آیا تو اسے ڈیوٹی سے غیرحاضر سمجھا جائے گا اور اس کی تنخواہ سے پیسے کاٹ لئے جائیں گے۔ ان اہلکاروں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان وردیوں پر اتنے پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے تو بہتر تھا کہ یہ پیسے ان اہلکاروں کی فلاح و بہبود پر خرچ کئے جاتے۔
آپ اس خبر کو پولیس اہلکاروں کی توندوں کو ذہن میں لا کر پڑھیں۔ آپ اداس بھی ہوںگے تو آپ کے لبوں پر مسکراہٹ بھی آجائے گی۔ آیئے اب آخر میں ثروت حسین کی ایک غزل پڑھتے ہیں۔
عہد ستم تمام ہو لوگوں کو سکھ ملے
ایسا کوئی نظام ہو لوگوں کو سکھ ملے
عشاق نے چراغ جلائے ہیں اس لئے
انسانیت کا نام ہو لوگوں کو سکھ ملے
الفت کا پھول رنگ بکھیرے ابد تلک
دیوار و سقف و بام ہو، لوگوں کو سکھ ملے
تاراج کرکے رکھ دیا ساری زمین کو
اب اس کا اختتام ہو، لوگوں کو سکھ ملے
اس سے زیادہ اور نہیں چاہئے ہمیں
آدم کا احترام ہو، لوگوں کو سکھ ملے



.
تازہ ترین