• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’منصوبے کے تحت زرداری صاحب عسکری قیادت کے باب میں محتاط ہیں۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو فوجی عدالتوں کے باب میں رضا ربانی کی شعلہ بیانی، محض گرم گفتاری ثابت ہوگی۔ یوں بھی موصوف گرجتے ہیں برستے کبھی نہیں۔ بزدل لوگ بہادری کا فقط خواب دیکھا کرتے ہیں....‘‘یہ سطور ممتاز کالم نگار ہارون الرشید صاحب کے اُس کالم سے ماخوذ ہیں جو انہوں نے سینیٹ سےفوجی عدالتوں کے بل کی منظوری سے قبل لکھا، اور ہو بہو ایسا ہی ہوا۔ ہمارے مدوح رضا ربانی کی زیر صدارت سینیٹ کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال توسیع کا بل دو تہائی یعنی تین کے مقابل 78ووٹوں کی حمایت سے منظور کرلیا گیا۔ تاویلات کی بہار پر کیف سہی، حقیقت مگر یہ ہے کہ چیئرمین صاحب کا عملِ عیاں سینیٹ میں موجود حضراتِ دیگراں سے کسی طوربھی مختلف نہیں، دہر کا مضحکہ مگر ملاحظہ ہو کہ پھر بھی ہر ایک بقول جون ایلیا داد ہی کا طالب ہے۔
تو مِرا حوصلہ تو دیکھ، داد تو دے کہ اب مجھے
شوق ِکمال بھی نہیں، خوفِ زوال بھی نہیں
جیلوں کی سختیوں، جلاوطنی کی کم بختیوں یعنی مصائب و آلام کی کہانیوں کے داستان گو، ان جمہوریت پسندوں نے جس غلامانہ انداز میں یہ بل منظور کیا، اس کا اظہار ان کے خیالات کے انگ انگ سے نمایاں تھا، اگر چند حروف میںاس خیال آفرینی کو بے ستر کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’کوا گند بھی کھائے اورادائے ناگواری بھی دکھلائے‘‘ شاید یہ کہاوت ہمارے ایسے ہی سیاستدانوں کے لئے اخترا ہوئی ہوگی۔ درکار تفصیلات سے تو آپ جناب رضا ربانی صاحب ہی کی طرح’ بوجھل دل‘ سے آگاہ ہوئے ہوں گے، لیکن آئیے پارلیمان کی ان مستورات جنہیں میڈیا سر بازار لے آیا ہے، کو ایک نظر پھر دیکھتے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بل کی حمایت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا’’دہشت گردی کی ایک نئی لہر فوجی عدالتوں کے بل کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ہی آئی‘‘ کیا ہی اچھا ہو ڈار صاحب اپنی اس مبہم بات کی ذرا وضاحت بھی فرمادیتے! سینیٹر رحمان ملک نے البتہ ڈار صاحب کے قطعی برعکس اپنا مافی ضمیرروایتی کھلے ڈھلے انداز میں بیان کیا، فرمایا ’’دنیا میں کہیں فوجی عدالتیں نہیں ہیں‘‘ شاید زبان پھسل گئی تھی اگلے ہی جملے میں جس پر قابو پالیا گیا! فرمایا ’’لیکن دنیا میں کہیں پاکستان کی طرح حالات بھی نہیں ہیں، ہم جو کررہے ہیں کھلے دل سے کررہے ہیں‘‘ کاش ایسا ہی ہوتا! ایسے تابعدار جمہوریت پسندوں کی خدمت میں منیر نیازی صاحب کا ایک شعر پیش خدمت ہے۔
اس حُسن کا شیوہ ہے جب عشق نظرآئے
پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا
سینیٹر نعمان وزیر نےالبتہ حقیقت شناسی کا بے باک مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’ جب بل کی حمایت کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اب بحث کا فائدہ نہیں، دو سال بعد ہم پھر یہی کر رہے ہونگے‘‘ تالیاں...سینیٹر سیف اللہ مگسی ان سے بھی سبقت لے گئے، فرمایا’’ جب بڑوں نے بیٹھ کر بل کی حمایت کا فیصلہ کرلیا ہے تو دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے،اس بل کو منظور کریں اور گھر جائیں ...کہتےہیں کہ ایک گائوں کے لوگ ایک پھاٹک سے گزر کر اپنے کھیتوں میں کام کے لئے جاتے تھے، پھاٹک پر مامور چوکیداروں کو شرارت سوجھی،کیوں نہ ان کی بہادری کا امتحان لیا جائے،چنانچہ شرط یہ رکھی کہ یہاں سے گزرنے پر انہیں ایک ڈنڈا کھانا ہوگا۔ وہ یہاں سے گزرتے اور پیٹھ پر چھترول تناول کرنے کے بعد آگے بڑھتے،رفتہ رفتہ چھترول ایک سے دو، دوسے تین ، تین سے چار ہونے لگے، جب بھی اضافہ ہوتا وہ خوشی سے فوری اس شرمناک اضافے پر راضی ہوجاتے۔ بالآخر صاحبانِ جبرکو اکتاہٹ دامن گیر ہونے لگی۔اُن کی بیٹھک ہو ئی کہ یہ کیسے بے حس لوگ ہیں کہ اپنے ہی کھیتوں میں جانے کے لئے یہ سارا تشدد برداشت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ایک ترکیب پر کام کرنے کا قصد کیا کہ شاید اس سے ہم اس کارِ بےلذت سے نجات پالیں۔ سو پھاٹک بند کردیا، دیہاتی آئے بند پھاٹک کو دیکھ کر مایوس لوٹ گئے۔ چوکیداروں نے سوچا کام ہوگیا،اب یہ لوگ باہم متحد ہوکر آئیں گے اور پھاٹک کو خس و خاشاک کی طرح لےجائیں گے۔ اگلے روز پھاٹک بند دیکھ کر سب نے باآوازِ بلند پوچھا! پھاٹک کیوں نہیں کھولتے؟ اب چوکیدار سامنے آئے، ان کے تیور دیکھ کر خیال کیا کہ شاید آج چوہدراہٹ کا The Endہے۔آخری سین میں سسپنس کے لئے جواب دیا، ہم نے چھترول میں اضافے کرکے اسے ڈبل کرلیا ہے....دیکھا تو تمام کے تمام بیک وقت عالمِ سر شاری میں پیٹھ کئے ہوئے تھے۔خوشی میں فرطِ جذبات سے ’رندی‘ ہوئی آواز میں گویا ہوئے مگر ذرا جلدی کیجیے گا! ...
سینٹ میںقائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے فرمایا’’ زور آور فیصلہ کرکے حکومت کو بتا دیتا ہے کہ فیصلہ کرلیا ہے۔پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان پر سوائے فوجی عدالتوں کے قیام کے کسی اور نکتے پر کوئی کام نہیں ہوا۔ اگر ہوا ہوتا تو فوجی عدالتوں کی ضرورت نہ ہوتی‘‘اعتزاز صاحب نے اور بھی بہت کچھ ارشاد فرمایا۔ اب بھلا ان ڈائیلاگ کی کیا ضرورت تھی!پیشہ ور وکیل تو اپنا قیمتی وقت یوں بے سود نہیں کیا کرتے۔زرداری صاحب کے’ تیر‘ کا ان دنوں نشانہ بننے والے چیف جسٹس(ر) جناب افتخارچوہدری کی گاڑی ڈرائیو کرنے والے اعتزاز صاحب اس ’تاریخی‘ موقع پر نہ جانے کیوں وجد میں آگئے تھے؟بنا بریںاے این پی کی ستارہ ایاز نے حکیمانہ بات کہہ کر البتہ دریا کو جیسے کوزے میں بند کردیا تھا ’’پارلیمنٹ مضبوط ہوتی تو یہ نوبت نہ آتی‘‘ البتہ یہ نہیں بتایا کہ یہ کیسے مضبوط ہوگی؟ بی بی! یہ ولی خان، سید مودودی، علامہ نورانی، مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان، خیر بخش مری، شیر باز مزاری، عطا اللہ مینگل، معراج محمد خان کا دور نہیں۔ محترمہ! ولی خان صاحب آج حیات ہوتے تو کیا آپ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دینے کی جسارت کر پاتیں !یہ پاناما ، سرے، کوکین و معجون کا دور ہے! یہی اسباب ہیں کہ ہارون الرشیدصاحب نے بل کی منظوری سے قبل ہی لکھ دیا تھا، اور کیا خوب لکھا ’’منصوبے کے تحت زرداری صاحب عسکری قیادت کے بارے میں محتاط ہیں۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو فوجی عدالتوں کے باب میں رضا ربانی کی شعلہ بیانی، محض گرم گفتاری ثابت ہوگی، یوں بھی موصوف گرجتے ہیں، برستے کبھی نہیں۔ بزدل لوگ بہادری کا فقط خواب دیکھا کرتے ہیں....‘‘



.
تازہ ترین