• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ حکومت نے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی درخواست ارسال کرنے کے اگلے دن جواب کا انتظار کئے بغیر انہیں عہدے سے فوری طور پر ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور ایڈیشنل آئی جی ریسرچ اینڈ انیلیسز سردار عبدالمجید دستی کو پولیس کے سربراہ کا اضافی چارج دے دیا ہے جس کے سبب ایک نہایت متنازع صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اے ڈی خواجہ کا موقف ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے نوٹیفکیشن تک چارج نہیں چھوڑیں گے جبکہ سردار عبدالمجید نے ہفتہ کو انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کا اضافی چارج سنبھال کر محکمانہ امور کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے اس طرح صوبے میں پولیس کے دو سربراہ کام کر رہے ہیں۔ پولیس افسران پریشان ہیں کہ کس کا حکم مانا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن حکومت پاکستان نے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی صوبہ یکطرفہ طور پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ وفاق نے آئی جی سندھ کے لئے صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ تینوں نام مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نام اچھی شہرت کے حامل نہیں۔ یہ یقیناً بہت اہم معاملہ ہے۔ پولیس کی اصلاح کے بغیر معاشرے سے نہ جرائم ختم ہو سکتے ہیں اور نہ پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اے ڈی خواجہ کی شکل میں سندھ پولیس کو طویل عرصہ کے بعد ایک اہل اور دیانتدار سربراہ ملا تھا۔ آئی جی کے عہدے پر وفاق کا اختیار ہے، اے ڈی خواجہ ایک اچھی شہرت رکھنے والے افسر ہیں سندھ کے سیاسی و سماجی حلقوں کے بقول وہ میرٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں، سندھ میں پولیس کی بھرتیوں پر میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے انہوں نے فوج اور سی پی ایل سی کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مستحسن فیصلہ کیا۔ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی کے حالات کی بہتری کے لئے ایسے ذمہ دار افسران کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ اور وفاق کو یہ معاملہ باہمی گفت و شنید سے جلد از جلد عوام کے مفاد کے مطابق حل کرلینا چاہئے۔

.
تازہ ترین