• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونیوالے اپنے حالیہ مضمون میں امریکہ میںپاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے تسلیم کیا ہے کہ اُنہوں نے 2011ء میں درجنوں امریکیوں، جن میں خفیہ اہل کار بھی شامل تھے، کو ویزے جاری کیے۔ ان ایجنٹوں نے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کیلئے مئی 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن کی معاونت کی۔ اس اعتراف کے بعد حسب ِ معمول ایک مرتبہ پھر حسین حقانی پر غداری کے الزامات لگانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اُنھوں نے پی پی پی کی قیادت کا ساتھ دیتے ہوئے اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کی رٹ کو چیلنج کرنے کی جسارت کی تھی، چنانچہ اُنہیں 2011ء میں میموگیٹ کی زد میں آکر استعفیٰ دینا پڑا۔
حسین حقانی نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ویزے اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان، یوسف رضا گیلانی اور واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے کے اُس وقت کے ڈیفنس اینڈ ایئراتاشی، بریگیڈیر نذیر بٹ (جو آج کل کور کمانڈر ہیں) کی اجازت سے جاری کیے تھے۔ اب کم و بیش ایک ماہ کی تاخیر سے آئی ایس پی آر نے اس معاملے پر خاموشی کو توڑتے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’’ویزوں کے ایشو پر ریاستی اداروں کا موقف سچ ثابت ہوا‘‘۔
اس سے دو اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ آئی ایس پی آر نے اتنی دیر کے بعد اس معاملے پر موقف دینے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ دوسرا یہ کہ اتنا محدود اور عمومی بیان دیتے ہوئے واضح موقف سے کیوں گریز کیا گیا۔ موجودہ بیان نہ تو معاملے پر روشنی ڈالتا ہے، نہ ہی اس پر ’’مزید تیل گراتا ہے‘‘۔ درحقیقت یہ بات اہم ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس پی آر کی غیر ضروری فعالیت کو کم کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد ہورہا ہے۔ اس سے پہلے جنرل اشفاق کیانی اور بعد میں جنرل راحیل شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کو جارحانہ حد تک فعال دیکھا گیا اور اس نے ایسے معاملات میں بھی ٹویٹ کرنا ضروری سمجھا جس سے گریز کیا جانا مناسب تھا۔ چنانچہ اگر جنرل قمر باجوہ کی قیادت میں آئی ایس پی آر نے اپنا پیشہ ور وقار ملحوظ خاطر رکھنا شروع کیا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن کیا ویزوں کے معاملے پر واضح بیان دینے سے گریز کو سراہا جانا چاہئے؟
حالیہ دنوں پیش آنے والے کچھ دیگر واقعات بھی ایسے ہی سوالات اٹھاتے ہیں۔ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ آصف زرداری کی وطن واپسی، شرجیل میمن کی واپسی اور ضمانت، ایان علی کی پاکستان سے روانگی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت پر رہائی (یہ تینوں مبینہ طور پر زرداری صاحب سے قریبی تعلق رکھتے ہیں) وزیراعظم نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی کسی ’’ڈیل‘‘ کا نتیجہ ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پی پی پی کو ان تینوں پیش رفتوں سے فائدہ پہنچا ہے، لیکن اگر کوئی ڈیل ہوئی تو اس سے نواز شریف صاحب کو کیا فائدہ ہوا کیونکہ آصف زرداری تو حکمران جماعت کو مختلف معاملات پر آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وہ کسی ڈیل کا ’’لحاظ‘‘ کیوں نہیں کررہے ؟ دو معاملات پر پی پی پی نے البتہ وزیراعظم کے ساتھ تھوڑی سی لچک پیدا کی ہے، اور یہ معاملات فوجی عدالتوں اورسندھ میں رینجرز کے قیام اور اختیارات ہیں۔ تاہم یہ دونوں معاملات وزیراعظم سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے دلچسپی کے حامل ہیں کیونکہ ان کا تعلق دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ سے ہے۔
ان دونوں معاملات پر پی پی پی نے سخت موقف اختیار کیا تھا۔ یہ فوجی عدالتوں کے بل کو مستر د کرنے کی دھمکی دے رہی تھی (بشرطیکہ اس کی سینیٹ میں اکثریت ہوتی)، نیز اس نے اسلام آباد کو وارننگ دی ہے کہ وہ رینجرز کو صوبے میں کارروائی کرنے کی اجازت صرف اُس صورت میں دے گی اگر اُسے یقین دلایا جائے کہ بدعنوانی کے الزامات کی آڑ میں اس کے رہنمائوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا۔ ان دونوں معاملات پر ایسا لگتا ہے کہ سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی نہ کوئی مفاہمت ہوگئی ہے۔ اس سے ملک میں اداروں کے درمیان تنائو میں کمی واقع ہوگی۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ موجودہ فوجی قیادت سیاست دانوں اور حکمران طبقے کی بدعنوانی سے اغماض برتنے، یا سویلین کی من مانی کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ درحقیقت یہ پاکستان کی قومی سلامتی کو درپیش مسائل سے نمٹنے کیلئے اپنایا گیا ایک نیا لائحہ عمل ہے۔ اس کیلئے سویلین حکومتوں کا تعاون درکار تھا۔ اس مقصد کیلئے ایسے معاملات پر تنائو کم کرنا ضروری تھا جن سے فوج کی سویلین پر بالا دستی کا تاثر ابھرتا ہے۔
یہ تبدیلی پاکستان کیلئے خوش آئند ہے کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے اور معاشی ترقی کے ذریعے غربت اور جہالت، جو دہشت گردی کے بیانیے کو دراصل تقویت دیتی ہیں، کو کم کرنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ سب سے اہم پاک چین اقتصادی راہداری کو قومی مفاہمت اور سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کو سول ملٹری تعاون اور اتفاق ِرائے درکار ہے تاکہ مشرقی اور مغربی محاذوں پر بڑھتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کیا جاسکے۔ جنرل قمر باجوہ کی آمد دراصل سول ملٹری تعلقات میں بہتری کی نوید ثابت ہوئی۔ امید ہے کہ اس سے شخصیات کی بجائے پاکستان کے مفادات کو تحفظ ملے گا۔ یہ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران جیسے قومی سیاست دانوں کیلئے سامنے آکر اس قومی مفاہمت کو تقویت دینے کا وقت ہے۔



.
تازہ ترین