• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان کی آرمی چیف سے حالیہ ملاقات بالکل ایسے حالات کی غمازی کر رہی ہے جیسے اگلے دو تین ماہ میں سیاسی نظام میں باہمی رضامندی سے کچھ بہتر ہی ہونے والا ہے، جس کا کسی کو پتہ نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے، کس کے ساتھ کیا ہوگا اور کس کو کیا ملے گا۔ پاکستان میں چونکہ کارخانے چلیں یا نہ چلیں، افواہ ساز فیکٹریاں اور کارخانے چلتے رہتے ہیں۔ اس لئے ہر کوئی اپنے اپنے اندازے لگا رہا ہے۔ اس وقت ویسے تو’’سب‘‘ ہی کو پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے جس میں ہر سیاسی پارٹی اپنی اپنی حکمت عملی بنا ئے بیٹھی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ وہ سب کلیئر ہو رہے ہیں، البتہ چند اداروں کے لئے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت مخالف پارٹیاں خاص کر پی ٹی آئی بہت زیادہ توقعات لے کے بیٹھی ہوئی ہےجیسے سب کچھ ان کے لئے یا ملک کیلئے بہتر ہو رہا ہے، مگر ایسے لگتا ہے کہ 60۔40کی شرح سے کچھ معاملات پر بعینہٖ اقدامات سامنے آسکتے ہیں۔ بعض حلقوں کے مطابق آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات بھی شاید عدلیہ کے متوقع تاریخی فیصلے پس منظر میں ہو، تاکہ ملک میں سیاسی طور پر کوئی ایسا ماحول پیدا نہ ہو جس سے عوام، حکمران اور حتیٰ کہ ریاست کے لئے بھی ایسے مسائل پیدا ہوجائیں جن کو حل کرنے کیلئے غیر فطری اقدامات کی نوبت آجائے۔ ایسے تو عمران خان کے حالیہ دھرنے کے آخری ایام میں بلکہ کرکٹ کی زبان میں آخری او ورز میں اچانک میچ ڈرا کی طرف چلا گیا تھا اور معاملات ڈی گرائونڈ سے نکل کر جی ایچ کیو کی وکٹ پر چلے گئے تھے۔ جہاں ریفری اور دیگر نے نہ تو کسی کو محمد علی کلے بننے دیا اور نہ کسی کو جھارا پہلوان، اس کے بعد جمہوریت پٹری سے اترتے اترتے رہ گئی تھی۔ اب بھی ایسے ہی لگتا ہے اللہ کرے جمہوری ادارے برقرار رہیں، چاہے شخصیات اور نام بدل جائیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس سے ملک کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں پر مزید منفی اثرات پڑ سکتے ہیں جس کا کم از کم موجودہ حالات میں ہمارا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں ویسے بھی اس وقت معاشی ترقی کے حوالے سے حکومتی دعوئوں اور مخالف جماعتوں کے اعلانات میں بڑھتا عدم اعتماد سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کو پریشان کررہا ہے۔ حکومتی اعداد و شمار پر ماہرین کیا عام آدمی کا اعتبار بھی اٹھتا جارہا ہے ۔ اس لئے کہ بہترین میڈیا مینجمنٹ سے چلانے کے کبھی کبھار نتائج مثبت نظر آنے کے باوجود گھنائونے ثابت ہوتے ہیں جس کا نقصان حکمراں سیاسی جماعت کو الیکشن کے نتائج توقعات کے مطابق نہ آنے کے بعد ہوتا ہے۔ اس وقت بھی معاملات کچھ ایسے ہی ہیں۔
دوسری طرف قومی سطح پر مسلم (ن)پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے قائدین اور بعض رہنمائوں کے بیانات میں گرما گرمی اور کئی جگہ الزام تراشی کی سیاست قومی سطح پر عوامی حلقوں میں مایوسی پھیلانے کا باعث بن رہی ہے اور اس سے حالات غیر جمہوری عمل کی طرف جارہے ہیں جو کہ نہیں ہونے چاہئیں ۔ اس سلسلے میں ہر ادارے کو قومی سلامتی کے ساتھ ساتھ ملک میں افہام و تفہیم کی سیاست اور شرافت کی روایات کو پروان چڑھانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دوسرا یہ کہ تاریخ ملک میں الزام تراشی کی سیاست کرنے والوں کو کوئی اور ہی سبق سکھا سکتی ہے۔ اس لئے سب جماعتیں قوم اور ملک پر رحم کریں۔
ہمارے ملک کو اس وقت ایسے معاشی استحکام کی ضرورت ہے جس سے سیاسی اور جمہوری استحکام کو تقویت ملے اور سیاسی جماعتیں 20۔25سال کے لئے دکھاوے کی مخالفت کی روایات ختم کرکے قومی اقتصادی ایجنڈے کا پلان تیار کریں جس میں تمام ا سٹیک ہولڈرز ایک دستاویز پر متفق ہوں جس کی منظوری پارلیمنٹ دے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر متوقع انتخابات سے کافی پہلے موثر ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی ضرورت کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔



.
تازہ ترین