• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتہ کافی ’’مصروف‘‘ رہا۔ میں ایک تسلسل کے ساتھ توہین آمیز رویے اور الزامات کا ہدف تھا۔ کہا گیا کہ میں پاکستان اور بھارت، دونوں کیلئے بیک وقت کام کر رہا ہوں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آزاد جموں اور کشمیر کے فیس بک جنگجو مجھے ایک پاکستانی ایجنٹ سمجھتے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر کی ایک سیای جماعت کے وابستگان مجھے بھارت کیلئے کام کرنے والا سمجھتے ہیں۔ چند ہفتے قبل میں نے عمران خان کے منفی سیاسی ہتھکنڈوں کا ایک ناقدانہ جائزہ لیا تو کئی ایک پیغامات میں مجھے ’’پٹواری‘‘ یا ’’پی ایم ایل (ن) کا ایجنٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ تاہم موجودہ یلغار کے مقابلے میں وہ ایک ہلکا پھلکا مذاق تھا۔
یہ معاملہ اُس وقت شروع ہوا جب میں نے ایک حریت پسند کشمیری رہنماکے بارے میں فیس بک پر ایک پوسٹ شائع کی۔ مذکورہ رہنما سیاسی صلاحیتوں یا چالاکی، کے فقدان کی وجہ سے کچھ عرصے سے منظرِ عام سے ہٹ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل اُنھوں نے عوامی اشتعال کو بھی دعوت دی تھی۔ اس کی وجہ پاہلاگم (Pahalgam)، جو کہ تاریخی طور پر صنعتکاروں اور دولت مند خاندانوں کا من پسند تفریحی مقام ہے، میں ایک بڑے ہوٹل کی تعمیر تھی۔ عوامی اشتعال کی وجہ حقیقی تھی کیونکہ مذکورہ شخص کے پاس مقبوضہ کشمیر کے مہنگے مقامات میں سے ایک پر ایک ہوٹل تعمیر کرنے کے وسائل نہیں ہیں۔ میری پوسٹ بدعنوانی کے حالیہ اسکینڈل کے بارے میں تھی۔ سری نگر کے رپورٹرز کے مطابق اس رہنما کی سید علی گیلانی کی حریت کانفرنس سے فوری رخصتی ہوئی تھی جس کی وجوہ واضح نہیں تھیں۔ شاید وہ کارکردگی دکھانے کے قابل نہ تھے، یا پھر انھوں نے سید علی گیلانی کے ایک داماد کی مبینہ منفی حرکت پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم اس کے برعکس ثبوت سامنے آنے سے اب یہ الزام بذات خود اپنی ساکھ کھوچکا ہے۔
ایک کشمیر ی کے نزدیک یہ ایک خبری کہانی تھی کیونکہ اس کی ٹائمنگ بہت اہم تھی۔ جب بھارتی پشت پناہی رکھنے والے مقامی سیاستدان دو پارلیمانی نشستوں پر ضمنی انتخابات کی مہم چلا رہے ہوں تو اس ماحول میں یہ استعفیٰ حریت کے کیمپ کو شدید زک پہنچانے کے مترادف تھا کیونکہ وہ انتخابی مہم کا بائیکاٹ کرنے کیلئے متفق لائحہ عمل اختیار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس وقت استعفیٰ بھارتی ایجنسیوں کی طرف سے کئے گئے ایک کاری وار کے مترادف تھا۔ گزشتہ کئی ایک ماہ سے میں مصدقہ اطلاعات سن رہا تھا کہ بھارتی فورسز کی چھروں والی گن سے متاثر ہونیوالے افراد اور حالیہ تحریک کے دوران زخمی ہونیوالے دیگر افراد کی ریلیف کیلئے بھجوائی گئی ایک بڑی رقم کو خوردبرد کیا گیا ہے۔ جنوبی ایشیا، جس میں پاکستان بھی شامل ہے، میں پائے جانیوالے ماحول میں بدعنوانی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں، لیکن بھارتی فوج کی فائرنگ سے اپنی بینائی کھو دینے والے افراد کی ریلیف کیلئے بھجوائی گئی رقم میں خوردبرد واقعی دل دہلا دینے والا معاملہ تھا۔ خطے میں اپنے روابط تک رسائی حاصل کرنے سے مجھے پتہ چلا کہ مذکورہ رہنما کے استعفے کی وجہ درحقیقت مبینہ خوردبرد ہی تھی کیونکہ اس کی آڑ میں وہ رقم کی جانچ پڑتال سے بچ نکلے تھے۔ یہ کہانی سامنے آنی چاہئے تھی، چنانچہ میں نے اس پر تین یا چار مختصر سے پیراگراف لکھے اور فیس بک پر شائع کر دئیے۔ اس کے بعد پھر کیا تھا، مجھ پر الفاظ کی سنگ باری شروع ہو گئی۔ پہلے تو مجھے کسی بہی خواہ نے ’’نصیحت‘‘ کی کہ میں اس نوٹ کو واپس لے لوں۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ مجھے اپنے ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مصدقہ ہونے کا یقین تھا۔ پھر ایک قریبی رفیق نے تنقید کی توپوں کا رخ میری طرف کردیا، اور مجھے بھارتی ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا۔ اس کے بعد وہ کھلی دھمکیوں پر اتر آئے، اورکہا کہ ’’تم سے پوچھ لیا جائے گا‘‘، نیز یہ کہ مجھے جلد ہی ایک ’’فون کال‘‘ آئے گی۔ عام طور پر اس دھمکی سے مطلوبہ نتائج برآمد ہو جاتے ہیں۔ اس گروپ کے پاکستان میں سیاسی نمائندے کو کہتے سنا گیا کہ میں کشمیر کی تحریکِ آزادی کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہوں اور یہ کہ مجھے ملک سے اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہئے۔ بہرحال میں ابھی پاکستان میں ہی ہوں اور مذکورہ شخص نے بھی اپنے استعفیٰ واپس لے لیا ہے۔ چنانچہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
پسِ نوشت:
گزشتہ اگست کو کمانڈر، برہان وانی کی ہلاکت کے بعد عوامی بغاوت اور احتجاجی ریلیاں پورے عروج پر تھیں، جبکہ فوجی دستوں اور پیرا ملٹری فورسز نے وادی میں انتہائی سخت کرفیو لگا رکھا تھا۔ اُن حالات میں بھی میرا معمول تھا کہ میں ان فورسز کو چکما دیتے ہوئے احتجاجی مظاہرین سے ملتا، زخمیوں کی دیکھ بھال کرتا اور اُنہیں کچھ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرتا۔ اس دوران میں مقبوضہ وادی میں کشمیریوں ہونے والے ظلم و ستم کی رپورٹ بھی لکھتا جبکہ فضا ریاستی تشدد اور پھانسیوں سے بوجھل ہوتی۔
اس محاصرے میں چار ہفتے گزارنے کے بعد اگست کے شروع میں ایک سینئر سرکاری افسر، جس سے میری دوستی تھی، کی آمد کی اطلاع ہوئی۔ میں نے ملاقات سے صاف انکار کر دیا۔ اگلے روز اُس نے مجھے سرکاری موبائل فون پر رابطہ کرنے کا کہا کیونکہ مواصلات کے دیگر تمام ذرائع معطل کئے جا چکے تھے تاکہ لوگ ایک دوسرے سے رابطہ نہ کر پائیں۔ اُس نے مجھے غیر معمولی حد تک دوستانہ لہجے میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرے لئے ایک سرکاری گاڑی بھجوا رہا ہے تاکہ ’’دوستانہ ماحول‘‘ میں بات چیت کی جا سکے۔ میں نے سرد مہری سے ہنستے ہوئے کہا کہ ایسے دوستانہ نغمے مجھے کسی مذموم حرکت پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ اس کے بھجوائے گئے سرکاری اہلکار کو فون واپس کرنے سے پہلے میں نے اُس کی سرزنش کی کہ وہ سول سروس کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ایک خفیہ ایجنسی کے گندے کھیل میں مہرے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا، جو بہرحال جذبات سے عاری اور قدرے دھمکی آمیز تھا۔ یہاں گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ہماری ملاقات کبھی نہ ہوسکی۔ کل مجھے اس کا معانی خیز پیغام ملا ’’جی، ایک ایجنٹ بن کر کیسا محسوس ہو رہا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’تم اس لئے کہہ رہے ہو کیونکہ تم خود ہو‘‘۔ اس پر اُس نے ایک تشبیہ دی جو طنزیہ اور دھمکی آمیز تھی۔
ضمیمہ:
ایک اور کیس میں، میں سرینگر کے ایک صحافی سے بات چیت کر رہا تھا۔ وہ صحافی ایک جھوٹا آئی ڈی استعمال کر رہا تھا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا ’’تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘ میں نے یہ کہتے ہوئے اُسے ٹال دیا کہ میں اجنبیوں کو ذاتی معلومات فراہم نہیں کرتا۔ وہ غصے سے پھٹ پڑا اور چیخا ’’صرف بڑے ایجنٹ ہی ممالک کے درمیان اس طرح آزادی سے سفر کرسکتے ہیں۔‘‘ جب آخرکار مجھ پر اُس کی اصل شناخت ظاہر ہو گئی تو اُس نے کچھ پچھتاوے کا اظہار کیا، لیکن پھر کہا ’’امید ہے آپ نے برا نہیں منایا ہوگا‘‘۔ ’’بے شک نہیں‘‘ میں نے جواب دیا۔



.
تازہ ترین