• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچنے والا صلیب پر ہوتا ہے اور جو سنجیدگی سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر لے وہ کانٹوں کے بستر پر سوتا ہے ۔ جیسے اپنے کے ڈی نروس ؔایک صبح اخبار کے مطالعے کے دوران دگر گوں ملکی حالات کا ادراک کر کے جذباتی ہو گئے تھے۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ ہیجانی کیفیت میں گھر کے اندر ادھر ادھرٹکریں مارتے ہوئے چیخنے لگے ’’بس بیگم! بہت ہو گیا ۔ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔مجھ سے اب مزید برداشت نہیں ہوتا۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا۔ آخرمیری بھی تو کچھ ذمہ داری ہے ‘‘ بیگم نے کہا کہ ضرور کچھ کیجئے مگر پہلے اپنا پاجامہ سیدھا کرلیں ، آپ نے الٹا پہنا ہوا ہے ۔ تفنن بر طرف ! جب ایک ملک کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کر کے کوئی اتنا مضطرب اور حواس باختہ ہو سکتا ہے کہ اسے اپنے پاجامے کا بھی ہوش نہ رہے تو ذرا سوچئے کہ جو انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک پورے عالم اسلام جیسی طلسم ہو شربا دنیا کے مسائل کا بارِ گراں اپنے نازک کندھوں پر اٹھا لے، اس غریب کی کیا کیفیت ہو گی ؟ ویسے تو قائداعظم کی رحلت کے فوراً بعد ہی بغیروقت ضائع کئے ہم نے اپناپاجامہ الٹا کرلیا تھا ،تاہم بالخصوص جب مرد مومن ضیاء الحق کے انقلابی دور میں پارسائی نے ہمیں تاک لیا اور ہم اپنے پاجامے کی پروا کئے بغیر افغان جہاد کی آتش میں بلا خطر کود پڑے ،تب دور اندیش نے کہا :
جبیں سے بخت آخر اڑ گیا یہ کہہ کے اظہارؔ
یہاں اب ختم میرا آب و دانہ ہو رہا ہے
اس نام نہادجہاد کے فیوض و برکات سے ہم آج تک خاک و خون ، انتہا پسندی ، جہالت، لاقانونیت اور سفاکیت کی صورت مستفید ہو رہے ہیں ۔ البتہ مسلم اُمہ کی بیداری اور دائمی اتحاد امت ایسے مقاصدِ اولیٰ کے حصول کے سلسلے میں کبھی ہمارے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔ اس میدان میں ہماری گراں مایہ خدمات اور کامیابیوں کا دشمن بھی معترف ہے ۔ ایران، عراق، سعودی عرب، افغانستان، چیچنیا ،بوسنیا، کویت ، متحدہ عرب امارات، شام، مصر، برماحتیٰ کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اُمہ کوکوئی مسئلہ درپیش ہو، ہمارا مشن جاری ہے اور جاری رہے گا کہ ’’چبھے کانٹا جو کابل میں تو دہلی کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے ‘‘آج جب اسی درخشندہ روایت کی پاسداری میںہمارا وفد امن مشن پر سعودی عرب اور ایران کے دورے پر تھا تو ہمارے سر فخر کی نئی بلندیوں کو چھو رہے تھے ۔ مراد یہ ہے کہ جس کے جگر میں سارے جہاں کا درد ہو ، اس برپشم قلندر کو پروا نہیں ہوتی کہ اس کا اپنا پاجامہ الٹا ہے یا کوئی سرے سے اس کی دھوتی ہی لے اڑا ہے ۔ ہمارے سامنے آج کا اخبار پڑا ہے ۔ 2014ء سے 2016ء کے درمیان غذائی قلت سے اموات کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نقشے کے مطابق ہماری پندرہ سے پچیس فیصد آبادی غذائی قلت کی اس انتہاکا شکار ہے ،جو اموات کا سبب بنتی ہے ۔ ساتھ ہی ایک خبر بھی ہے کہ صرف رواں ماہ تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد پچاس سے تجاوز کر چکی ہے ۔ پچھلے سال ایسے ہی اعدادوشمار کی روشنی میں کہا گیا تھا کہ ساٹھ فیصد ملکی آبادی خط ِ غربت سے نیچے اور اٹھاون فیصد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے ، سیر چشمی جن کے مقسوم میں نہیں یا ان کا رزق کوئی ڈائنو سار لے اڑتا ہے ۔ آج ہی کے اخبار سے معلوم ہوا کہ صرف ضلع راولپنڈی کے 245سرکاری اسکول پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں ۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ملک میں گیس اور بجلی کا سنگین بحران ایک مرتبہ پھر وارد ہو گیا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں 70گھنٹے تک مسلسل بجلی بند رہی ۔ جبکہ پچھلے برس برطانوی جریدے ٹائمز نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور پانی و ہوا سے ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ نیز یہاں کوئلے کے 186ارب ٹن ذخائر موجود ہیں ، جن سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
پچھلے برس کے کچھ اوراعدادو شمار بھی ہمارے سامنے پڑے منہ چڑھا رہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ پچھلے دس برس میں پچاس ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ گویا سالانہ پانچ ارب ڈالرز قرضہ لیا جا رہا ہے ۔ یونیسکو نے ’’تعلیم سب کے لئے ‘‘ کے عنوان سے مانیٹرنگ رپورٹ 2015ء شائع کی ،جس کے مطابق 2000ء سے 2015ء تک پندرہ برس میں پاکستان تعلیمی پروگرام کا کوئی بھی ہدف پورا نہ کر سکا۔ عالمی یوم خواندگی کے حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان میں شرح خواندگی جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے ۔ حکومت پاکستان نے 2015ء تک موجودہ لٹریسی ریٹ میں سات فیصد اضافے کا دعویٰ کیا تھا مگر گزشتہ پانچ سالوں میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوا۔ آج بھی ا سکول جانے والے عمر کے بچوں کی نصف تعداد اسکولوں سے باہر رہ کر چائلڈ لیبرقوانین کا منہ چڑھا رہی ہے۔ ستر فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور ملک کی آدھی آبادی بے روزگار ہے ۔ پچھلے سال کی ایک خبر یہ بھی تھی کہ صوبہ پنجاب کا تعلیمی بجٹ 18.6ارب روپے جبکہ راولپنڈی میٹرو بس منصوبے کی مجوزہ لاگت 46بلین روپے ہے ۔ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن میگزین کے مطابق ایشیا کی بہترین سو یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی پاکستان میں نہیں ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر ملکی لوگوںکی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد سولہ لاکھ جبکہ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے ۔ تجارت ،مارکیٹیں ، کھیت، کھلیان اور جرائم ،ہر جگہ ان کا اجارہ ہے ۔ ادارہ قومی شماریات نے کہا کہ نو کروڑ افراد کا سرکاری دستاویزات میں کوئی ریکارڈ ہی نہیں اور ان کے پاس مصدقہ شناخت کا کوئی ثبوت نہیں ۔ یہ جانکاری بھی ہوئی کہ ہماری پچاس فیصد آبادی آئیوڈین کی کمی کا شکار ہے ۔ پاپولیشن کونسل نے کہا کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے ۔اگر یہی 1.95فیصد شرح پیدائش جاری رہی تو 2015ء میں ملک کی آبادی 34کروڑ ہو جائے گی ۔ پٹرولیم مصنوعات کی قلت اپنی جگہ لیکن گزشتہ برس ایسی ’’ اشیائے تعیش‘‘ پر ٹیکس کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی۔ سبز پاسپورٹ کی توقیر کا یہ عالم ہے کہ ویزا پابندیوں کے انڈیکس میں وطن عزیز کا نام نچلے ترین درجے میں تیسری پوزیشن پر ہے ۔ ملکِ خداداد میں ولولہ انگیز قیادت،اصحاب غیرت و خود مختاری ،جانفروشانِ وطن ، محافظانِ قوم ،بد انتظامی ،بد عنوانی ،جبراوردھونس دھاندلی کا کوئی قحط نہیں ، تاہم بد قسمتی سے ایسا قحط الرجال ہے اور سیاسی و معاشی مساوات ،عدل و انصاف ،معقولیت ،شعور و آگہی اور علم و عمل کی قلت کا یہ عالم ہے کہ مہذب معاشرہ قائم ہونے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں۔طالبان کے بعد یہاں داعش بھی قدم جما رہی ہے ۔ قومی ایکشن پلان اور ضرب عضب آپریشن کے مخالفین ہماری آستینوں میں رینگ رہے ہیں،جنہیں ہم بخوشی پال رہے ہیں۔پھر بھی ہم باراک اوباما کے ریمارکس پر چیں بہ جبیں ہیں کہ پاکستان آئندہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام کا شکار رہے گا۔نادان اوباما نہیں جانتا کہ ہم دنیا کو بدل کر رکھ دیں گے البتہ اپنا الٹا پاجامہ سیدھا کر کے نہیں پہنیں گے ۔
اے میرے وطن تیز قدم، تیز قدم ہو
پھر تجھ سے ملائے وہ قدم جس میں کہ دم ہو
تازہ ترین