• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات روز بروز سرد مہری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یورپ اور ترکی کا ایک دوسرے کے بغیر تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ۔ ترکی اگرچہ یورپی یونین کا مستقل رکن نہیں ہے لیکن یورپی یونین اسے اپنی مستقل رکنیت عطا کرنے کے لئے ہمیشہ ہی مختلف شرائط عائد کرتی رہی ہے اور ترکی کی جانب سے ان شرائط کو پورا کرنے کے باوجود یورپی یونین نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ترکی کو ٹالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ ترکی اس وقت 2.9فیصد شرح ترقی سے یورپی ممالک اورOECDکے ممالک کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور ملک میں صدارتی نظام قائم ہونے اورمضبوط سیاسی استحکام کے بعد یورپی یونین کے رکن ممالک اس کوشش میں ہیں کہ وہ ترکی کو کیسے روکیں۔
یورپی یونین کےترکی سے متعلق منفی روئیے کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اپنی انقرہ میں صدارتی مہم کے دوران شدید مذمت کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ ’’ ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت صرف صلیبی اتحاد کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں دی جا رہی ‘‘ ترکی نیٹو میں متحدہ امریکہ کے بعد اپنی فوجی قوت کے لحاظ سے دوسرے بڑے اتحادی ملک کی حیثیت رکھتا ہے لیکن نیٹو کے ساتھ بھی ترکی کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں کیونکہ ترکی اس وقت روس کے زیادہ قریب ہوتا جا رہا ہے۔ ترکی اور روس کے تعلقات اگرچہ ترکی کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد خراب ہو گئے تھے لیکن یہ تعلقات اس وقت نیا رخ اختیار کرگئے جب روس نے ترکی کی 15جولائی کی ناکام بغاوت سے قبل ہی ترکی کواس بغاوت کے بارے میں آگاہ کردیا تھا جس پر دہشت گرد تنظیم فیتو نے مقررہ وقت سے چند گھنٹے قبل بغاوت برپا کردی۔ میں اپنے کالموں میں اس بغاوت سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کرچکا ہوں لیکن موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بغاوت کے ایسے گوشے پر سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں جو آج تک پاکستانی قارئین کی نظروں سے اوجھل رہا ہے۔ جیسا کہ عرض کرچکا ہوں روس کو اپنی خفیہ سروس کے ذریعے ترکی میں بغاوت کی اطلاع پہلے ہی سے مل چکی تھی جس پر روس کے صدر پیوٹن نے فوری طور پر اپنے ایک مشیر الیکسنڈر دوگین کو انقرہ روانہ کیا اور مغربی ممالک کو اس کی کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ۔ روسی مشیر دوگین نے بغاوت میں شامل اہم ناموں کی فہرست حکومتِ ترکی کو پیش کی ۔ بغاوت کے روز صدر ایردوان کے طیارے کو ترکی کے ایف سولہ طیاروں نے نشانہ بنانا تھا لیکن حکومتِ روس کی اس بغاوت کی خبر کے حکومتِ ترکی سے شیئر کرنے کے بعد روس کے سات طیاروں اور ایس 400 میزائلوں نے صدر ایردوان کے طیارے کو نشانہ بنانے کے لئےتیار ایف سولہ طیاروں کے پائلٹوں کو وارننگ جاری کرتے ہوئے روکا۔ متحدہ امریکہ میں تیار ہونے والی بغاوت کے اس پلان کے مطابق ایک امریکی نشریاتی ادارےکی ٹیم امان پور کی قیادت میں ایک روز قبل ہی کوریج کے لئے انقرہ اور استنبول پہنچ چکی تھی۔ علاوہ ازیں ترکی میں امریکہ کے فوجی ہوائی اڈے انجرلیک سےپرواز کرنے والے 45ہیلی کاپٹر باغیوں کے آپریشن میں شمولیت اختیارکرچکے تھے جس پر ترک پولیس کےڈھائی ہزار اہلکاروں نے فوری طور پر انجیرلیک کے ہوائی اڈے کا محاصرہ کرتے ہوئے بجلی منقطع کردی اور امریکہ کو واضح طور پر پیغام دے دیا گیا کہ’’ ہوائی اڈے کے تحفظ کی خاطر حکومتِ ترکی نےاسے اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے ‘‘حکومت ِ ترکی کے اس پیغام کے بعد اوباما انتظامیہ نے فوری طور پر کئی ملکی فوجی آپریشن ختم کرنے کا حکم جاری کردیا۔
امریکہ اور یورپ کو پختہ یقین تھا کہ ایردوان کسی بھی صورت دہشت گرد تنظیم فیتو کی برپا کردہ بغاوت سے جانبر نہیں ہوسکیں گے اور اس طرح ترکی جوکہ گزشتہ چودہ سال سے مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن اور دنیا کی عظیم قوت بننے کی دہلیز پر آن پہنچا ہے اور ایردوان کے 2023ء کے اہداف جس میں ترکی کو دنیا کی دسویں بڑی طاقت بنانا مقصود ہے کو لگام دی جاسکے گی۔ یورپی ممالک اور امریکہ اس بغاوت کے ذریعے ترکی میں آق پارٹی کو اقتدار سے ہٹا کر ملک میں پہلے کی طرح کوالیشن حکومتوں کا دور واپس لانے کے خواہاں تھے تاکہ ترکی کاسیاسی استحکام ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے لیکن ان ممالک کو اس بات کی ہر گز توقع نہ تھی کہ ترک عوام ، صدر ایردوان کے ایک پیغام پر سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر اور اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ملک میں ڈیموکریسی مضبوط بنانے کا ایک ایسا کارنامہ سر انجام دیں گے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
یورپ اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ صدر ایردوان کوئی ڈکٹیٹر نہیں بلکہ انہیں باون فیصد عوام کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ صدر ایردوان کو ملک میں 16 اپریل کو ہونے والے ریفرنڈم میں کامیابی کا پختہ یقین ہے اور کامیابی کی صورت میں یورپ کو سبق دینے کی توقع کی جارہی ہے کہ آئندہ کسی بھی یورپی رہنما کو انہیں ’’آمر‘‘کہنے کی جرات نہ ہو ۔ جرمنی، ہالینڈ آسٹریا، سوئٹزر لینڈ ، ناروےاور ڈنمارک میںصدر ایردوان کے حق میں مہم کی ریلیوں کی اجازت نہ دئیے جانے کی وجہ سے ترکی اور ان یورپی ممالک کے مابین جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ صدر ایردوان نے یورپی ممالک کے اس روئیے پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان تمام ممالک پر نازی ازم اور فاشزم کے الزامات عائد کئے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں بڑی تعداد میں ترک باشندے آباد ہیں جن کی واضح اکثریت صدر ایردوان کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ان ممالک میں ترکی کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں ووٹنگ بھی کرائی جائے گی جس سے صدر ایردوان بھر پور طریقے سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں یورپی یونین میں آباد یہ ترک باشندے ملک کی قسمت بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ترکی میں ان دنوں بھر پور طریقے سے ریفرنڈم کی مہم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس صدارتی مہم کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ایردوان نے یورپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ یورپ نے ان کے حق میں مہم کو روک کر اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ہے۔
ترک صدر ایردوان نےاپنی صدارتی مہم کے دوران اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ16اپریل کے ریفرنڈم کے بعد ترکی یورپی یونین کے ساتھ اپنے باہمی تعلقات پر نظر ثانی کرے گا۔ علاوہ ازیں ترکی اور یورپی یونین کے مابین عراقی اور شامی پناہ گزینوں کے بارے میں طے پانے والے سمجھوتے کے بارے میں بھی صدر ایردوان واضح طور پر یورپی یونین کو خبر دار کرچکے ہیں اگر یورپی یونین کے ممالک نے ان پناہ گزینوں سے متعلق عائد ہونے والے فرائض ادا نہ کئے تو پھر حکومتِ ترکی اس سمجھوتے پر نظر ثانی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے۔



.
تازہ ترین